وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر افغانستان کو ’تنہا نہ چھوڑنے‘ اور عالمی برادری سے امداد کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ 40 سال سے جاری اس جنگ کے خاتمے کا یہ نادر موقع ہے۔
جمعے کو تاجکستان کے دارالحکومت دو شنبے میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کرونا وائرس اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان کے اقدامات اور افغانستان کی حالیہ صورتحال پر گفتگو کی۔
عمران خان نے کہا: ’حالیہ واقعات کے پیش نظر افغانستان ہماری توجہ کا مرکز ہے۔ گذشتہ (اشرف غنی) حکومت کی اچانک تبدیلی، جس نے سب کو حیران کردیا تھا، طالبان کے ملک پر کنٹرول اور غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا افغانستان میں ایک نئی حقیقت قائم کر چکا ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’یہ سب کچھ خونریزی، خانہ جنگی اور پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر ہجرت کے بغیر ہونا باعث اطمینان ہے۔ اب یہ عالمی برادری کے اجتماعی مفاد میں ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغانستان میں کوئی نیا تنازعہ نہ ہو اور سکیورٹی کی صورتحال مستحکم ہو۔‘
اشرف غنی کی حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا: ’ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سابق حکومت غیر ملکی امداد پر بہت زیادہ انحصار کرتی تھی، جسے ختم کرنا معاشی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’یہ افغان عوام کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہونے کا لمحہ ہے۔ ہم اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کو سراہتے ہیں کہ وہ فوری طور پر انسانی امداد کے لیے بین الاقوامی مدد کو متحرک کرنے میں آگے بڑھے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ’انخلا کی بین الاقوامی کوششوں میں مدد کے علاوہ پاکستان نے انسانی امداد کی فراہمی اور سہولت میں بھی ہر ممکن تعاون کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں عالمی برادری کا مثبت کردار انتہائی اہم ہے۔‘
عمران خان نے کہا: ’افغانستان میں 40 سال سے جاری جنگ کو بالآخر ختم کرنے کا یہ ایک نادر موقع ہے۔ اس لمحے کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ساتھ ہی انہوں نے بھارت کا نام لیے بغیر کہا: ’اس نازک موڑ پر منفی باتیں پھیلانا یا شرارتی پروپیگنڈے میں ملوث ہونا غیر دانشمندانہ ہوگا، جیسا کہ کچھ شرپسندوں نے کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ صرف امن کے امکانات کو کمزور کرنے کا کام کرے گا اور اس سے افغان عوام کو نقصان پہنچے گا۔‘
افغان طالبان کے حوالے سے نات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ’طالبان کو سب سے بڑھ کر ایک ایسے سیاسی ڈھانچے سے متعلق کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے جہاں تمام گروہوں کی نمائندگی ہو۔ یہ افغانستان کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’یہ بھی ضروری ہے کہ تمام افغانوں کے حقوق کا احترام یقینی بنایا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغانستان دوبارہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ رہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان پرامن اور مستحکم افغانستان میں مستقل مفاد رکھتا ہے۔ ’افغانستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ ملک اپنی خود مختاری کی قدر کرتا ہے اور اسے باہر سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ ہم ایک مستحکم، خودمختار اور خوشحال افغانستان کی حمایت جاری رکھیں گے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی امن مذاکرات کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔‘