کوئٹہ میں ان دنوں طلبہ پاکستان میڈیکل کمیشن ( پی ایم سی) کےخلاف احتجاج کررہے ہیں۔ اس دوران نہ صرف کئی دفعہ ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرکے بند کردیا گیا بلکہ متعدد بار انہیں پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج کا سامنا بھی رہا۔
یہ احتجاج اب بھی جاری ہے۔ طلبہ کا مطالبہ ہےکہ میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے آن لائن ٹیسٹ کو منسوخ کرکے ان سے باقاعدہ ٹیسٹ لیا جائے۔ اس دوران ان کی ایک رہنما ہانی بلوچ کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر ہانی بلوچ کے موت کے حوالےسے خبریں چلنا شروع ہوئیں کہ ان کی موت گزشتہ روز طلبہ پر ہونے والے پولیس تشدد اور آنسو گیس شیلنگ کی وجہ سے ہوئی اور اس کی وجہ سے وہ بیمار ہوکر چل بسیں۔ اس خبر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے صارفین نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
یہ معاملہ انتہائی تیزی سے زور پکڑ رہا تھا کہ اس دوران بی ایس او (بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات اورنگزیب نے میڈیا کے پوچھنے پر وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ہانی بلوچ کی موت قدرتی ہوئی تشدد سے موت کی بات غلط ہے۔
اورنگزیب نے کہ ہانی ان کی کزن تھیں، اس حوالےسے سوشل میڈیا پر چلنے خبریں درست نہیں ہیں، ہانی 23 ستمبر کو ہمارے ساتھ احتجاج میں شریک تھیں لیکن ان کی طبیعت پہلےسے خراب تھی جس کی وجہ سے اسےگھر بھیج دیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ہانی بلوچ کی موت گھرمیں قدرتی طریقے سے ہوئی۔ وہ ایک متحرک رہنما تھیں اور طلبہ کی جدوجہد میں ہمیشہ ہمیشہ پیش رہیں۔ ان کی موت تمام طلبہ کے لیے انتہائی صدمے کا باعث ہے۔
دوسری جانب بلوچستان پولیس کا موقف بھی اس حوالے سے جاری کردیا گیا ہے۔
ترجمان پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’ہانی بلوچ بلوچستان سٹوڈنٹ آرگنائزیشن کی رکن و لاپتہ افراد کیس میں بھی سرگرم تھیں۔ ہانی بلوچ کی موت قدرتی ہے پولیس لاٹھی چارج کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔‘
بیان میں کہا گیا کہ مبینہ طور پر ہانی بلوچ اس وقت ٹی اینڈ ٹی چوک میں دوپہر ایک بجے موجود نہیں تھیں جب پولیس نے طلبا کو منتشر کیا۔ ہانی بلوچ کی جانب سے جمعے کی صبح پولیس کو یا کسی اور کو کسی چوٹ یا زخمی ہونے کی اطلاع نہیں دی گئی۔
ترجمان کے مطابق ’کچھ شرپسندوں کی جانب سے پروپیگنڈا کی کوشش کی جارہی ہے، اس پروپیگنڈے کی کوشش کو ہر سطح پر رد کیا جائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی نےبھی اپنے جاری بیان میں کہا ہےکہ ہانی بلوچ کے انتقال سے متعلق پروپیگنڈہ انتہائی گمراہ کن اور افسوسناک ہے۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی ’تنظیمی ساتھی ہانی بلوچ جوکہ سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی میں انگلش لٹریچر کی سٹوڈنٹ تھیں، ان کی 24 ستمبر کی شام کو وفات ہوئی ہے۔
طلبہ سیاست میں وہ انتہائی اہم کردار ادا کر رہی تھیں۔ بالخصوص پاکستان میڈیکل کمیشن کے خلاف جاری طلبا کی تحریک کو منظم کرنے میں ان کا کلیدی کردار تھا۔ 23 ستمبر کے گرینڈ ریلی میں وہ فرنٹ لائن پر متحرک نظر آئیں اور ساتھیوں کا حوصلہ بڑھاتی رہیں۔‘
مرکزی ترجمان نے وضاحت دی ہےکہ بانک ہانی بلوچ کی طبیعت پہلے سے ناساز تھی، مگر جدوجہد کو اولیت دیتے ہوئے وہ اپنی صحت کا پرواہ کیے بغیر ریلی میں متحرک رہیں۔ شام کے وقت جب ساتھیوں نے ان کی طبیعت کو زیادہ خراب پایا تو انہیں زور دے کر گھر بھیج دیا۔ جس کے بعد رات گئے پولیس کا لاٹھی چارج اور گرفتاریاں ہوئیں۔
’متحرک ساتھیوں کے قید ہونے سے ہانی بلوچ کا ان سے رابطہ منقطع ہو گیا اور جب ساتھی رہا ہو کر واپس آئے تو یہ دردناک خبر سامنے آئی کہ ہانی بلوچ طبیعت کی زیادہ خرابی کی وجہ سے اس جہان سے کوچ کر گئی ہیں۔‘