صوبہ سندھ کے ضلع دادو ضلع کے نواحی گاؤں کی رہائشی 65 سالہ حاجیانی چانڈیو اپنے چار سالہ پوتے کے ساتھ 16 ماہ سے لاپتہ اپنے بیٹے ظفر علی چانڈیو کی بازیابی کے لیے احتجاج کرنے اپنے گاؤں سے سینکڑوں کلومیٹر دور کراچی پریس کلب کے سامنے عید کے دن لگائے گئے احتجاجی کیمپ پہنچیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے حاجیانی چانڈیو نے کہا :’آج عید ہے، لوگ اپنوں کے ساتھ عید منا رہے ہیں، مگر میں عید کیسے مناؤں؟ میرا بیٹہ لاپتہ کردیا گیا ہے۔ یہ چار سالہ پوتا راتوں کو اٹھ کر بابا، بابا پکارتا ہے تو میرا کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔ مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ کہ میرے بیٹے نے آخر ایسا کیا کیا ہے جو اس طرح لاپتہ کردیا گیا؟‘
حاجیانی چانڈیو کے مطابق وہ دادو ضلع کی تحصیل میہڑ کے گاؤں متھیں اکھ کڈھی میں رہتی ہیں، جہاں ان کا بیٹا 46 سالہ ظفر علی چانڈیو بے زمین کسان کے طور پر آس پاس کے زمین داروں کے کھیتوں پر دیہاڑی پر کام کرتا تھا۔
حاجیانی نے بتایا کہ’16 ماہ پہلے میرا بیٹا کسی کام سے میہڑ گیا تو وہاں کچھ لوگ آئے اور بیٹے کو اٹھا کر لے گئے۔ ہمیں ان کا قصور تک نہیں بتایا، یہ تیسری عید ہے جو میں نے اپنے خاندان والوں کے ساتھ بیٹے کی بازیابی کے لیے احتجاج کرتے گزاری ہے۔‘
’میرا پوتا میرے بیٹے کے جیتے جی یتیم ہوگیا ہے۔ اگر میرے بیٹے نے کچھ کیا ہے تو کیس کریں، عدالت میں ثابت کرکے سزا دیں، مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اس طرح اٹھا کر لے جاتے ہیں، میں اپیل کرتی ہوں کہ میرے بیٹے کو جلد از جلد بازیاب کرایا جائے۔‘
سندھ اور بلوچستان سے جبری لاپتہ کردیے گئے افراد کی بازیابی کے دونوں صوبوں کی مختلف تنظیموں کی جانب سے کراچی اور کوئٹہ پریس کلبوں کے سامنے عید کے روز احتجاجی کیمپ لگائے گئے ہیں۔ کراچی پریس کلب کے سامنے کیمپ میں وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ، وائس فار مسنگ پرسنز آف بلوچستان، سندھ سجاگی فورم، بلوچ یکجہتی کمیٹی، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی) اور دیگر تنظیموں کے کارکنوں، لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت بڑی تعداد میں خواتین، مردوں اور بچوں نے شرکت کی۔
کراچی پریس کلب کے سامنے کیمپ پر بیٹھے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) سندھ کے وائس چیئرپرسن قاضی خضر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’آج دنیا بھر میں لوگ عید کی خوشیاں منارہے ہیں اور لاپتہ افراد کے گھر والے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لے سڑک پر بیٹھ کر احتجاج کررہے ہیں۔ ان کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ان کے پیارے زندہ بھی ہیں یا نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’کئی لاپتہ افراد سالوں سے واپس نہیں آئے، بلوچستان سے لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی جبری گمشدگی کو 12 سال ہوگئے ہیں، کراچی سے اٹھائے گئے 18 سالہ نوجوان فیصل ارائیں 10 سالوں سے گمشدہ ہیں۔ جنگی قیدیوں کو بھی اہل خانہ اور وکیل تک رسائی دی جاتی ہے مگر لاپتہ افراد کے زندہ ہونے کی بھی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ لاپتہ افراد کو کورٹ ٹرائل کا حق دیا جائے۔ انہیں جلد رہائی دی جائے۔‘
ایک سوال کے جواب میں قاضی خضر نے کہا: ’سندھ اور بلوچستان سے کتنے لوگ لاپتہ ہیں اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے۔ ہمارے خیال میں یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی) کے پاس تو ڈیڑھ سو دو سو افراد کے گھر والے ہی آتے ہیں۔ کئی لوگ اپنے پیاروں کی گمشدگی کے بعد چب سادھ لیتے ہیں۔‘