صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کی جیل میں اتوار کے دن ایک شخص کو اس وجہ سے گرفتار کیا گیا کہ اس نے خود کو محکمہ فنانس کاایڈیشنل سیکرٹری ظاہر کرتے ہوئے نہ صرف اپنا سروس کارڈ جیل سپرنٹنڈنٹ کو دکھایا بلکہ دھمکی بھی دی کہ اگر ان کا کام نہ ہوا تو وہ ان کے بلز رکوا سکتے ہیں۔
جیل سپرنٹنڈنٹ کے مطابق: ’پہلے تو وہ دباؤ میں آئے لیکن پھر انہیں شک ہوا اور موجودہ حقیقی عہدہ رکھنے والے افسر کے بارے میں معلومات کیں جس سے معلوم ہوا کہ در حقیقت ایڈیشنل سیکرٹری فنانس کا عہدہ ایک خاتون افسر کے پاس ہے جب کہ کال کرنے والے موصوف ایک جعل ساز ہیں۔‘
جعل سازی کی پاداش میں جعلی افسر سے ضروری پوچھ گچھ کے بعد گرفتار کیا گیا اور ان پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 420، 419، 468،170، 171، اور 34 لگائی گئی ہے جو کہ فراڈ سے متعلق دفعات ہیں اور ان کی سزا ایک سال قید جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔
مردان جیل کے موجودہ سپرنٹنڈنٹ ریاض مہمند نے انڈپینڈنٹ اردو کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ملزم کو پیر کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا جو انہیں ایڈیشنل سیشن جج کے پاس بھیج دیں گے جہاں سے عدالت ان کا فیصلہ کرے گی۔
ریاض مہمند نے بتایا کہ اتوار کے دن قریباً تین بجے انہیں پشاور سے ایک کال موصول ہوئی جس میں دوسری جانب سے سہیل خان نامی ایک شخص نے خود کو ایڈیشنل سیکرٹری فنانس کے طور پر متعارف کروایا اور بتایا کہ وہ اپنے کچھ مہمانوں کی چند قیدیوں سے ملاقات کرانا چاہتے ہیں۔
’چونکہ اتوار کے دن ہم قیدیوں کی ملاقات نہیں کرواتے، لہذا اس شخص نے جعلی عہدے اور سروس کارڈ سے اپنا کام نکلوانے کی کوشش کی۔ جعلی افسر کی وضع قطع اور چال ڈھال بھی افسرانہ تھی۔ وہ ایک شاندار گاڑی میں چند بندوں کے ساتھ تشریف لائے۔ ‘
جیل سپرنٹنڈنٹ نے بتایا کہ ملزم خوب ڈھٹائی اور اعتماد کے ساتھ جھوٹ بول رہا تھا، یہاں تک کہ اپنی سروس کارڈ بھی دکھایا تھا۔
’جب میں نے یہ کہا کہ موجودہ ایڈیشنل سیکرٹری فنانس تو محترمہ نیلم ہیں تو انہوں نے بتایا کہ وہ ان دنوں ملازمت سے او ایس ڈی ہیں۔ تاہم مجھے معلوم تھا کہ یہ بھی جھوٹ ہے۔ یہی وہ وقت تھا جب میں نے ان کو باہر برآمدے میں انتظار کا کہا اور ڈی ایس پی کو ان کی گرفتاری کے احکامات جاری کر دیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ریاض مہمند نے بتایا کہ متعلقہ جعلی افسر کے حوالے سے مزید معلومات کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ ملزم سہیل اس سے قبل خود کو بریگیڈئیر بھی ظاہر کرتے رہے ہیں، اور سادہ لوح لوگوں کو بے وقوف بناتے رہے۔
ملزم کے خلاف درج ہونے والے مقدمے میں ان تین افراد کے خلاف کارروائی کی درخواست بھی کی گئی ہے جو جعلی افسر کے ہمراہ سپرنٹنڈنٹ کے دفتر تشریف لائے تھے۔ ان کے خلاف ایف آئی آر میں پی پی سی کا دفعہ34 لگایا گیا ہے جو کہ ایک سے زیادہ اشخاص کا ایک ہی نیت سے کیا گیا جرم ہو۔ ایسے جرم میں ملوث ہر شخص کی سزابھی یکساں ہوتی ہے۔
اضح رہے کہ اکتوبر 2019 میں ریاض مہمند کے دفتر میں محمد طفیل نامی ایک شخص نے خود کو جعلی اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر متعارف کروایا تھا اور اسی طرح سے اپنا سروس کارڈ بھی دکھاچکے تھے۔ محمد طفیل بھی قیدیوں سے ملاقات کی غرض سے آئے تھے جن کو جیل سپرنٹنڈنٹ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔
دراصل متعلقہ جعلی افسر لوگوں سے پیسے لے کر ان کی قیدیوں سے ملاقاتیں کرواتے تھے اور گرفتاری سے قبل بھی بطور اسسٹنٹ کمشنر مردان جیل میں اپنا کام نکلوا چکے تھے۔