کھیلوں میں بعض اوقات ذمہ داریاں ادا کرنا مشکل ہو جاتی ہیں۔ ایسی ہی صورت حال کا سامنا افغانستان کے ہیڈ کوچ لانس کلوزنر کو بھی ہے جو اِن دنوں 12 ہزار کلومیٹر دور اپنی ٹیم کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ مہم کی منصوبہ بندی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک مثالی دنیا میں کلوزنر اور ان کے سکواڈ کو اس وقت متحدہ عرب امارات میں 25 اکتوبر کو ورلڈ کپ کے اپنے پہلے میچ کی تیاریوں میں مصروف ہونا چاہیے تھا۔
تاہم جنوبی افریقہ کے سابق آل راؤنڈر ڈربن کے قریب واقع اپنے گھر پر موجود ہیں اور ان کے کھلاڑیوں کی بڑی تعداد ایک ایسے ملک میں کم اہم تربیتی کیمپ میں شرکت کر رہی ہے، جو طالبان کے کنٹرول میں ہے۔
کلوزنر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم یو اے ای میں کم از کم ایک ماہ کے کیمپ کی منصوبہ بندی کر رہے تھے لیکن ہم ابھی تک ویزوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہم جتنی جلدی ہو سکے وہاں پہنچنے کی کوشش کریں گے۔‘
طالبان کے کنٹرول سنبھالنے سے پہلے بھی افغان ٹیم کی کوچنگ آسان نہیں تھی لیکن اب یہ اور بھی مشکل ہوگئی ہے کیونکہ پاکستان کے خلاف سیریز ملتوی ہونے کے علاوہ حکومت میں تبدیلی کے بعد ملک کا پروفیشنل ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ بھی منسوخ ہو چکا ہے۔
طالبان کا اثر و رسوخ پہلے ہی افغان کرکٹ بورڈ کے ہیڈ کوارٹر میں محسوس کیا جا رہا ہے، جہاں ایک نیا چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو آ چکا ہے۔
آئی سی سی کے مکمل رکن کی حیثیت سے افغانستان کے سٹیٹس کے لیے ایک بڑی تشویش ملک میں خواتین کی کرکٹ کا ممکنہ طور پر خاتمہ ہے۔
50 سالہ کلوزنر دو سال قبل اپنی تقرری کے بعد سے مختلف موسمی حالات میں ’تقریباً نصف درجن بار‘ کابل جا چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’میں حالات خراب ہونے سے کچھ دن پہلے کابل سے واپس آیا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ (طالبان کا کنٹرول حاصل کرنا) ناگزیر تھا لیکن جس تیزی سے یہ ہوا اس نے سب کو چونکا دیا۔‘
کرکٹ کے ’حامی‘ طالبان
’ہمارا تقریباً ڈھائی ہفتوں کا ایک بہت اچھا ٹریننگ کیمپ تھا۔ اس وقت پچز کافی اچھی تھیں۔ موسم بہت شدید تھا۔ میں سردیوں کے وسط میں ایک بار وہاں موجود تھا جب پچز گھٹنوں تک برف میں ڈھکی ہوئی تھیں۔‘
کلوزنر نے ابھی تک نئی انتظامیہ سے بات نہیں کی لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ’طالبان کرکٹ کو فروغ دیتے اور سپورٹ کرتے ہیں۔ وہ ہماری ذمہ داریاں جاری رکھنے کے حوالے سے خوش ہیں۔‘
’یہ ملک کے لیے اور اس کے لوگوں کے لیے بہت بڑی تبدیلی ہے۔ ہر ایک کو سنبھلنے میں تھوڑا وقت لگے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن جب تک ایسا ہوتا ہے کلوزنر کی توجہ اپنی ذمہ داریوں کے روزمرہ چیلنجز پر ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’میرے خیال میں ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے کچھ کھلاڑی دنیا بھر میں مختلف ٹی ٹوئنٹی لیگز کھیلتے ہیں۔‘
افغانستان کے 15 رکنی ورلڈ کپ سکواڈ میں سے آٹھ کو دوسرے ممالک میں پیشہ ورانہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کھیلنے کا تجربہ ہے۔
ان میں ملک کے ’بگ تھری‘ راشد خان، مجیب الرحمٰن اور محمد نبی شامل ہیں جو اس وقت متحدہ عرب امارات میں انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کھیل رہے ہیں۔
یہ تینوں سپنرز ہیں اور کلوزنر کہتے ہیں کہ ان کے پاس دنیا کا بہترین سپین اٹیک ہے۔
’ہمارا سب سے بڑا چیلنج بورڈ پر بھاری رنز کرنا ہے۔ ہماری توجہ اسی پر مرکوز ہے کہ اگر ہمیں پہلے بیٹنگ ملے تو ہم مسابقتی سکور کھڑا کریں۔‘
ایک چیز جس کے بارے میں کلوزنر پریشان نہیں، وہ کپتانی میں تبدیلی ہے کیونکہ راشد خان نے ٹیم سلیکشن میں مشاورت نہ ہونے پر استعفیٰ دے دیا ہے اور ان کی جگہ نبی نئے کپتان ہیں۔
کلوزنر نے کہا کہ انہیں دونوں کھلاڑیوں کے درمیان کسی کشیدگی کی توقع نہیں۔
’نبی ٹھنڈا اور پرسکون مزاج رکھتے ہیں۔ تمام سینیئر کھلاڑی مل کر بہت اچھی طرح کام کرتے ہیں۔ وہ (نبی) ان لڑکوں میں سے ہیں جو ذمہ داریاں ملنے پر ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کی پرفارمنس بہتر ہوگی۔‘