بھارت میں سرکردہ مسلمانوں میں سچ کو اپنی ذات پر بلاجواز تنقید پر قربان کرنے اور اپنی برادری کے ان اعمال پر غصے کا اظہار کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے جو اس نے کیے ہی نہیں۔
’منشیات کا جہاد ‘وہ تازہ سماجی حملہ ہے جس کی منصوبہ بندی مبینہ طور پر مسلمان غیر مسلموں کے خلاف کر رہے ہیں۔ یہ الزام غیر متوقع طور پر کیرالہ کے ایک کیتھولک پادری کی طرف سے جرم قرار دینے کے ایک قانون مسودے کی شکل میں سامنے آیا ہے۔
پادری نے کسی بھی قسم کے ثبوت کے بغیر خبردار کیا کہ ’سخت گیر جہادی‘ منشیات کو ’غیر مسلموں کو تباہ کرنے کے ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ کیرالہ کے کیتھولک پادریوں کی کونسل نے اس پادری کی تصدیق کی ہے۔
بھارت میں رہنے والے مسلمانوں پر جن غیرمعمولی ’مقدس جنگوں‘ کا الزام لگایا گیا ہے ان میں ’لو جہاد‘، ’کرونا جہاد‘ اور ’زمین جہاد‘ شامل ہے۔
اس پروپیگینڈے کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ مسلمان آبادی ’جہاد‘ میں مصروف ہیں۔ اس مقصد کے لیے زیادہ بچے پیدا کیے جا رہے تاکہ مسلمانوں کی تعداد ہندوؤں سے زیادہ ہو جائے۔
لیکن اس سے زیادہ تشویشناک بات مسلم اشرافیہ میں بڑھتا ہوا رجحان یہ ہے کہ وہ خود پر بلاجواز تنقید کی قربان گاہ پر حق کو قربان کررہی ہے اور ان کاموں پر غصے کا اظہار کر رہی جو مسلمان برداری نے انجام ہی نہیں دیے۔
ممبئی میں قائم ایک مسلم تنظیم نے بھارتی مسلمانوں کی نظریاتی اعتدال پسندی کے خلاف اسلامو فوبیا پر مبنی شبہات کو تقویت دی جب اس نے کسی ثبوت کے بغیر دعویٰ کیا کہ بعض مسلمان (نہ تو ان کی وضاحت کی گئی اور نہ نشاندہی) افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے پر بہت ’خوش‘ ہیں۔
اس تنظیم کے اس بیان پر دستخط کرنے والوں میں معروف مصنف جاوید اختر اور اداکار نصیرالدین شاہ بھی شامل تھے جس میں کسی ثبوت کے بغیر الزام لگایا گیا تھا۔
درحقیقت نصیرالدین شاہ نے ایک مختصر ویڈیو میں یہ الزام دہراتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی مسلمانوں کے ’کچھ طبقات‘ افغان طالبان کی واپسی کا جشن منا رہے ہیں۔ یہ اتنا ہی خطرناک عمل ہے جتنا طالبان کا افغانستان پر قبضہ کرنا۔
تاہم کچھ ہی دنوں میں انہوں نے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ انہیں جشن کی بات نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ بھارت میں کہیں بھی کسی تقریب کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ جاوید اختر نے بھی بعد میں اس بات پر اتفاق کیا کہ مسلم برادری میں صرف ایک بہت چھوٹی سی اقلیت طالبان کی حمایت کرتی ہے۔
لیکن نقصان ہو چکا تھا۔ اسلاموفوبیا کی ایک نئی لہر نے دنیا کی دوسری بڑی اور متنوع مسلم آبادی کو متاثر کیا۔
’ایک طبقے‘ اور ’کچھ طبقات‘کے الفاظ کا لاپرواہی سے استعمال کیا گیا۔ ان الفاظ کو اس طرح استعمال کیا گیا جس سے ظاہر ہو کہ مسلمانوں کی سیاسی خاموشی میں ’طالبانی شریعت‘ کی خواہش چھپی ہوئی ہے۔
اس حقیقت پر غور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی کہ موجودہ مسلمان ان لوگوں کی قابل فخر اولاد ہیں جنہوں نے 1947 میں نہ صرف ایک ’سیکولر جمہوری بھارت‘ کو ’اسلامی‘ پاکستان پر ترجیح دی بلکہ قومی اتحاد کی خاطر انتخابات کے اس جداگانہ نظام کو ترک کر دیا جس سے وہ 1909 میں انڈین کونسل ایکٹ کی منظوری کے بعد تقریباً چار دہائیوں سے مستفید ہوتے آ رہے تھے۔
رفیق زکریا نے اپنی کتاب’ان دا وائڈننگ ڈیوائڈ: این انسائٹ ان ٹو ہندو مسلم ریلیشنز‘میں لکھتے ہیں کہ جداگانہ حلقہ انتخاب کے نقصان نے مسلمانوں کو’سیاسی طور پر یتیم‘کر دیا کیونکہ وہ وہ قانون ساز اور دوسرے منتخب اداروں میں مناسب نمائندگی سے محروم ہو گئے۔
اس کے بعد سے حالات تبدیل نہیں ہوئے۔ فرانسیسی دانشور کرسٹوف جافرلوٹ کے مطابق 1980 سے 2014 کے درمیان لوک سبھا میں مسلم ارکان پارلیمنٹ کی نمائندگی تقریباً دو تہائی کم ہو گئی۔ حالانکہ اسی عرصے میں آبادی میں مسلمانوں کا حصہ بڑھ گیا۔ اس کے باوجود اس صورت حال نے بھارتی مسلمانوں کو اس بات پر نہیں اکسایا کہ وہ اپنے اندر مسلم اتحاد کے جذبات یا غیر علاقائی وفاداریوں کو جگہ دیں۔ یہ وہ حقیقت جس کی کم از کم دو بھارتی وزرائے اعظم تصدیق کر چکے ہیں۔
سابق بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے جولائی 2005 میں امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو انٹرویو میں اس حقیقت پر فخر کا اظہار کیا تھا کہ 15 کروڑ مسلمانوں میں سے ایک بھی’القاعدہ کی صفوں میں شامل نہیں ہوا اور نہ ہی طالبان کی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔‘انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایسا اس لیے ہوا کہ مسلمان برداری بھارت کی سیکولر جمہوریت پر پوری طرح اعتماد کرتی ہے۔
نو سال بعد ، وزیر اعظم نریندرمودی نے سی این این کے فرید زکریا کو بتایا کہ القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کا بھارتی مسلمانوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ مودی کے بقول: ’اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بھارتی مسلمان ان کی دھن پر رقص کریں گے تو وہ دھوکے میں ہے۔ بھارتی مسلمان بھارت کے لیے جئیں مریں گے۔ وہ بھارت کے لیے کچھ برا نہیں چاہتے۔‘وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی 2017 میں مسلمانوں پر اسی قسم کے اعتماد کا اظہار کیا۔
مسلم برداری پر میں بھارت کی اعلیٰ قیادت کے اعتماد کی حقیقت پسندانہ تصدیق سوفن گروپ سے وابستہ سوفن سینٹر کی طرف سے کی گئی ہے۔ یہ تنظیم حکومتوں اور کثیر القومی تنظیموں کو سٹریٹجک سکیورٹی انٹیلی جنس خدمات فراہم کرتی ہے۔ اس کی جنوری 2019 کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ کس طرح بھارتی مسلمان القاعدہ کے جغرافیائی مرکز کے خطرناک حد تک قریب ہونے کے باوجود جہادی بیانیے کی کشش کو نظر انداز کرنے میں کامیاب ہوئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے باوجود نصیرالدین شاہ’ہر ہندوستانی مسلمان سے یہ جاننا چاہتے تھے کہ آیا کوئی مسلمان مرد یا عورت اسلام میں اصلاحات چاہتی ہے یا ماضی کی کچھ صدیوں کے وحشی پن کے ساتھ زندہ رہنا چاہتی ہے۔‘جاننے کا یہ ظالمانہ انداز صرف بھارتی مسلمانوں اور آزادی کے بعد ان کی تاریخ کے بارے میں مکمل عدم واقفیت کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
جیسا کہ نصیرالدین شاہ نے تسلیم کیا کہ اگر بھارتی اسلام عالمی سطح پر موجود اسلام سے ہمیشہ مختلف ہوتا تو تب بھارتی مسلمان جیسا کہ شاہ کس طرح اس اسلام کی پیروی کر سکتے تھے جو خود شاہ کے زندگی کے بارے میں صوفیانہ نکتہ نظر سے مختلف رجحان کا مالک ہوتا؟
سچی بات تو یہ ہے کہ سیاست کی بنیاد پر تشدد کی کارروائیوں کے باوجود بھارتی مسلمان تمام برادریوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر آگرہ کے قریب سدھن گاؤں کے لوگوں نے دکھایا ہے کہ ہندو پیدا ہو کر اسلام پر عمل کرنا اورہندو نام کے ساتھ مسلمان ہونا ممکن ہے۔
کیرالہ کے گورنر عارف محمد خان نے ایک تازہ انٹرویو میں وضاحت کی کہ ان کی ریاست’برادری کی بنیاد پر تعصب‘ سے پاک کیوں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیرالہ کے لوگ مذہب کا اظہار اپنے لباس سے نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ زبان، ثقافت یا کھانے پینے کے معاملے میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سب ایک جیسے ہیں۔
اس حقیقت کے پیش نظر مسلم اشرافیہ کے ارکان جو یہ سمجھتے ہیں کہ کبھی کبھاران کا مسلمانوں کے خلاف بات کرنا ان کی غیر جانبدارانہ ساکھ کو بڑھاوا دے گا تو انہیں سمجھنا چاہیے کہ حقائق مقدس ہوتے ہیں اور ان کا بیان حقائق کے منافی ہو تو وہ آزادانہ نہیں ہوگا۔ غیر دانستہ اسلاموفوفیا کے ذریعے سیکولر ہونے کا راگ نہیں الاپا کا جا سکتا۔