افغانستان میں نیشنل یونین آف جرنلسٹس کے ایک سروے کے مطابق ملک میں طالبان کی حکومت کے آنے کے بعد صرف 30 فیصد میڈیا کام جاری رکھے ہوئے ہے، اور محض 33 فیصد صحافی ایسے ہیں جو تاحال کام کر رہے ہیں، جبکہ باقی 67 فیصد اپنی ملازمتوں سے برخاست ہو چکے ہیں یا انہوں نے ملازمتیں کھو دی ہیں۔
انڈسٹری سے منسلک افراد کا کہنا ہے امریکی انخلا اور طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد سے غیر ملکی تنظیموں کی امداد اور اشتہارات ختم ہوگئے ہیں جس سے ان اداروں میں بحران کی صورت حال ہے۔
غزل نظری زوندون ( zwandoon tv) ٹی وی کے ساتھ کام کرتی تھیں، اور اب بے روزگار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ لوگ صبح آٹھ سے دوپہر چار بجے تک پروگرام کیا کرتے تھے، مگر اب ایسا نہیں رہا۔
غزل نظری نے نتایا: ’میں نے یہاں بہت کام کیا، بہت پروگرامز کیے، میں خوش ہوں کہ میں نے اس فیلڈ میں کام کیا۔ طالبان حکومت سے پہلے ہمارا کام بہت اچھا تھا، عورتوں کے لیے بہت اچھے مواقع تھے کہ اپنے لیے اور خاندان کے لیے کام کریں۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ طالبان سے پہلے اکثر خاندان والوں سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ’مجھے والدین نے کئی بار کہا کہ تم یہ کام چھوڑ دو پھر بھی میں کرتی رہی کہ پیسے تو مل رہے تھے، تنخواہ ملتی تھی۔ جب سے طالبان آئے ہیں کام نہیں ہے، پیسے بھی نہیں ہیں، تنخواہ بھی نہیں۔ اکثر چینلز نے اپنے ملازمین کو پیسے نہ ہونے کی وجہ سے فارغ کر دیا ہے، میں نے بھی اسی طرح کام چھوڑا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا: ’ہم کو بھی چینل کی طرف سے کہا گیا کہ کام پر نہ آئیں۔ یہ بھی مجبور ہیں کیونکہ کوئی آمدنی نہیں ہے۔‘
غزل نظری کے مطابق ان خواتین کو کام کرنے کی اجازت ہے جو سیاسی پروگرام کرتی ہیں۔ ’میرے جو پروگرام تھے وہ سب انٹرٹینمنٹ کے تھے اس لیے انہوں نے ہم پر پابندی لگا دی۔‘
نجیب اللہ ساحل شرق ٹی وی کی نشریات کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’افغانستان میں طالبان کے آنے سے میڈیا کی صورت حال ان کے خوف سے بھی خراب ہوگئی ہے۔ کارکنوں اور مالکان، سب کے دل میں ایک طرح کا خوف ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سے ادارے اب بند ہیں اور معاشی حالات خراب تر ہیں۔‘
نجیب کہتے ہیں: ’یہ ایک نجی چینل ہے اور آپ کو پتہ ہے کہ نجی چینلز اشتہاروں پر چلتے ہیں۔ سابقہ حکومت میں یہاں بین الاقوامی ادارے تھے جیسے عالمی ادارہ صحت، یو ایس ایڈ ۔۔۔ موبائل نیٹ ورک تھے، ان سب کے اشتہاروں سے ہم اپنے چینلز کو چلاتےتھے۔ اب جب یہ حکومت آئی تو سب کچھ بند ہو گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں کم از کم 153 چینلز بند پڑے ہیں اور مستقبل معلوم نہیں ہے کہ کیا ہوگا۔ ’اگر طالبان کی پالیسی معلوم ہو جائے اور صحافیوں کو تحفظ دیا جائے تو شاید چینلز اپنا کام شروع کر سکیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ نرگس ریڈیو، جو مکمل طور پر خواتین کا چینل تھا، وہ بھی اب مستقل بند ہے۔ ’جب طالبان آئے تو ہم نے پانچ چھ دن نشریات چلائیں لیکن پھر نرگس ریڈیو بند کر دیا۔ نرگس ریڈیو ہم نے خود بند کیا کیونکہ ہمارا سٹاف، جو ساری خواتین تھیں، طالبان کے خوف سے نہیں آتی تھیں اور انہیں والدین کی طرف سے بھی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ جب ہم نے ان کے والدین سے بات کی تو وہ بالکل تیار نہیں تھے کہ ان کی بیٹیاں یہاں کام کریں تو آخرکار ہم نے ریڈیو نرگس بند کر دیا۔‘