افغانستان کے مشرقی صوبے ننگر ہار میں جمعرات کو نامعلوم افراد کی فائرنگ سے معروف خاتون ٹی وی اینکر ہلاک ہوگئیں۔
صوبہ ننگر ہار کے گورنر کے ترجمان عطا اللہ خوگیانی کے مطابق اینکر پرسن اور معروف افغان صحافی ملالہ میوند کو جلال آباد میں اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنے گھر سے روانہ ہو رہی تھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس واقعے کی ذمہ داری اب تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے مگر اس سے قبل شہریوں پر ہونے والے حالیہ حملوں کی ذمہ داری داعش سے ملحقہ ایک گروپ نے قبول کی تھی۔
ملالہ میوند ٹی وی اور ریڈیو پر پروگرام کرنے کے علاوہ خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے کے حوالے سے بھی پہچانی جاتی تھیں۔
ان کے قتل کے بعد صحافیوں اور بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے مذمت بھی سامنے آئی ہے۔
افغان صحافی ملالی بشیر نے ان کو خراج تحسین پیش کیا۔
ځمکه وه شهیده شین اسمان په جنازه کې و
— Malali Bashir (@MalaliBashir) December 10, 2020
سر په سر دا څه موده جانان په جنازه کې و
غم د کومې بُورې مور د ورارې خور به وګالو
دوه درې نه دي درست افغانستان په جنازه کې و
پير محمد کاروان#MalalaMaiwand pic.twitter.com/6EpxzKP7bL
افغانستان میں اقوام متحدہ کے اسسٹنس مشن نے بھی خاتون صحافی کے قتل کی مذمت کی۔
UNAMA condemns the killing today of human rights activist and journalist Malala Maiwand in #Jalalabad #Afghanistan. It is particularly shocking that her life was taken on International Human Rights Day. #JournalistSafety #PressFreedom #EndImpunity #WPFC2020
— UNAMA News (@UNAMAnews) December 10, 2020
گذشتہ ماہ کے دوران افغانستان میں دو مختلف واقعات کے دوران دو افغان صحافیوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔
اس سے قبل مئی میں بھی ایک معروف خاتون صحافی مینا منگل کو قتل کیا گیا تھا۔ خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی صحافی اور سیاسی مشیر مینا منگل کو دن دیہاڑے دارالحکومت کابل کے ایک عوامی مقام پر اس وقت نشانہ بنایا گیا تھا جب وہ اپنے دفتر کے لیے روانہ ہو رہی تھیں۔
قتل سے چند روز قبل مینا نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
آزادی صحافت کے لئے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد 2018 صحافیوں کے لیے بدترین سال رہا ہے، جب 15 صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کو افغانستان بھر میں ہلاک کیا گیا۔
قدامت پسند معاشرہ ہونے کے باعث یہ خواتین صحافیوں کے لیے اور بھی خطرناک ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی افغانستان کو خواتین کے حوالے سے بدترین ملک قرار دیا ہے جہاں انہیں سکول جانے یا ملازمت کرنے کی پاداش میں قتل کرنا عام سی بات ہے جبکہ ملک میں خواتین کی عصمت دری اور ان پر گھریلو تشدد، بچپن میں شادیاں اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات تشویش ناک حد تک زیادہ ہیں۔