اتوار کو شمالی وزیرستان کے علاقے بویہ کی خڑ کمر چیک پوسٹ پر پاکستانی فوج اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے درمیان تصادم کے واقعے کے بعد پی ٹی ایم رہنما محسن داوڑ کا انٹرویو لینے والے صحافی گوہر وزیر کو مبینہ طور پر گرفتار کرلیا گیا۔
26 مئی کو پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ پی ٹی ایم رہنماؤں محسن داوڑ اور علی وزیر کی سربراہی میں ایک گروہ نے شمالی وزیرستان کے ضلع بویہ کی خڑ کمر چیک پوسٹ پر حملہ کیا، اس دوران فائرنگ سے پانچ فوجی جوان زخمی ہوئے جبکہ حملہ کرنے والے تین افراد ہلاک اور دس زخمی ہوگئے۔ دوسری جانب پی ٹی ایم رہنما علی وزیر سمیت آٹھ افراد کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ محسن داوڑ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
تاہم پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین اور دوسرے کارکنان نے واقعے کی ذمہ داری سکیورٹی فورسز پر عائد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ شمالی وزیرستان کی تحصیل مچا مداخیل میں چیک پوسٹ پر تعینات فوجی اہلکاروں نے ان کے دھرنے کے شرکا پر حملہ کرکے متعدد لوگوں کو زخمی کیا، جن میں محسن داوڑ بھی شامل تھے۔
مزید پڑھیے: فوج، پی ٹی ایم تنازع: کون کہاں کھڑا ہے؟
’پی ٹی ایم نے جتنی آزادی لینی تھی لے لی‘
پشتو نیوز چینل ’خیبر نیوز‘ سے وابستہ صحافی گوہر وزیر نے گذشتہ روز پی ٹی ایم کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کا انٹرویو کیا تھا، جس میں انہوں نے وزیرستان کے علاقے خڑ کمر میں پیش آنے والے واقعے کے حوالے سے تفصیلات بتائی تھیں۔ اس سارے واقعے کے بعد یہ پہلا انٹرویو تھا جس میں پی ٹی ایم کا موقف سامنے آیا تھا۔
صحافی گوہر وزیر کے بھائی انور کمال نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ ان کے بھائی کو پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتار کیا ہے۔
انور کمال نے بتایا کہ اس وقت وہ بنوں سے باہر ہیں اور ان کو صرف اتنا پتہ ہے کہ ان کے بھائی کو پیر کی شب گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: ’مجھے اپنے بھائی کی گرفتاری کے بارے میں ان کے صحافی دوستوں سے پتہ چلا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان کی گرفتاری کی وجہ کیا ہو سکتی ہے، لیکن لگتا ہے کہ گرفتاری کا تعلق پی ٹی ایم کے معاملے سے ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے اس سلسلے میں پولیس سے رابطہ کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ ’وہ پولیس کے ساتھ کیا بات کریں گے؟ نہ وہ اس سلسلے میں کچھ کر سکتی ہے۔‘
اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو نے بنوں کے ضلعی پولیس سربراہ یاسر آفریدی سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔ پولیس موقف لینے کے لیے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ضلع بنوں کو بھی متعدد بار کالز اور پیغامات بھیجے گئے لیکن انہوں نے بھی جواب نہیں دیا۔
متعلقہ تھانے کے سٹیشن ہاؤس افیسر (ایس ایچ او) ارشاد خان سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ طبی وجوہات کی بنا پر ایک ہفتے سے چھٹی پر ہیں اور انہیں اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔
تاہم بنوں کے ایک مقامی صحافی روفان خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کو پولیس کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ گوہر وزیر کو تین ایم پی او کی دفعہ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے اور انہیں 22 دیگر گرفتار افراد سمیت ہری پور جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔
مینٹی ننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او )کی دفعہ تین کے تحت گرفتاری اُس وقت ہوتی ہے جب حکومت سمجھے کہ کسی شخص سے امن عامہ کو خطرہ ہے اور اس کی گرفتاری ضروری ہے۔ اس دفعہ کے تحت کوئی بھی شخص زیادہ سے زیادہ چھ مہینوں تک جیل بھیجا جا سکتا ہے۔
تین ایم پی او کے تحت گرفتاری کے احکامات ڈپٹی کمشنر کی طرف سے جاری کیے جاتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر آفس کے ایک اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گوہر وزیر سمیت دیگر 22 افراد کو ڈی سی کے احکامات کی روشنی میں گرفتار کیا گیا ہے۔
مذکورہ اہلکار نے مزید بتایا کہ گرفتاری کی وجہ ان لوگوں کے بنوں کے ٹانچی بازار میں کیے گئے مظاہرے میں ریاستی اداروں کے خلاف نعرے بازی اور ریاستی اداروں کے سربراہان کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال تھا۔
خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع سمیت شمالی وزیرستان میں پی ٹی ایم کی جانب سے خڑ کمر واقعے کے خلاف دھرنا بھی جاری ہے۔ اس کے علاوہ پشاور سمیت دیگر اضلاع میں مختلف مقامات پر گزشتہ دو دنوں کے دوران مظاہرے بھی کیے گئے ہیں۔
صحافتی تنظیموں کی جانب سے گرفتاری کی مذمت
خیبر یونین آف جرنلسٹ کے صدر فدا خٹک نے گوہر وزیر کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے بتایا کہ صحافیوں پر غیر اعلانیہ بندشیں قابل مذمت ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر گوہر وزیر کو تین ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا ہے تو اس کا کوئی جواز نہیں بنتا کیونکہ وہ صحافتی ذمہ داری نبھا رہے تھے۔ گوہر وزیر کا نہ کسی گروپ اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی سے تعلق ہے۔ وہ ایک صحافی ہیں اور انہیں اس طرح گرفتار کرنا غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدام ہے۔‘
محسود پریس کلب کے صدر نصیر اعظم محسود نے بھی گوہر وزیر کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کو جلد از جلد رہا کیا جائے ورنہ قبائلی اضلاع میں مظاہروں کے سلسلے کا آغاز کردیا جائے گا۔
شمالی وزیرستان میں جلسے جلوسوں پر پابندی عائد
ایک ایسے وقت میں جب پی ٹی ایم کی جانب سے اعلان کیے گئے میران شاہ دھرنے کو دو روز ہوگئے ہیں، شمالی وزیرستان کی ضلعی انتظامیہ نے دفعہ 144 کا نفاذ کرکے ضلع بھر میں جلسے جلوسوں اور اشتعال انگیز تقاریر پر پابندی لگانے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔
ضلعی دفتر سے جاری ہونے والے نوٹیفیکشن کے مطابق یہ پابندی آئندہ 30 دنوں کے لیے ہو گی اور کسی بھی خلاف ورزی کے صورت میں تادیبی کارروائی کی جائے گی۔ نوٹیفکینش کے مطابق ضلع بھر میں اسلحے کی نمائش، ہوائی فائرنگ اور گاڑیوں کے کالے شیشوں کے استعمال پر بھی پابندی ہوگی۔
محسن داوڑ نے گزشتہ روز ایک ویڈیو پیغام میں خڑ کمر واقعے کے خلاف میران شاہ میں دھرنے کا اعلان کرتے ہوئے لوگوں سے دھرنے میں شرکت کی اپیل کی تھی۔