طالبان نے افغانستان میں شدت پسندوں گروپوں پر قابو پانے کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔
اس طرح اگست میں امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان نے امریکہ کے ساتھ پہلے براہ راست مذاکرات سے پہلے اپنا مؤقف واضح کر دیا ہے کہ بنیادی مسئلے کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق سینیئر طالبان اور امریکی حکام کے درمیان ہفتے اور اتوار کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بات چیت ہو رہی ہے۔
فریقین کے حکام کا کہنا ہے کہ شدت پسند گروہوں پر قابو پانا اور غیرملکی شہریوں کو افغانستان سے نکالنا مذاکرات کے ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ طالبان غیر ملکیوں کے افغانستان سے روانگی کے معاملے پر لچک کا دکھانے کا اشارہ دے چکے ہیں۔
طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’افغانستان میں داعش خراسان کے مسلسل فعال ہونے کے بعد واشنگٹن کے ساتھ کوئی تعاون نہیں ہو گا۔‘
داعش نے متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جن میں شیعہ برادری کی مسجد میں حالیہ خودکش بم دھماکہ بھی شامل ہے جس میں 46 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔
داعش خراسان کے خلاف کارروائی میں امریکہ کے ساتھ تعاون کے بارے میں سوال پرسہیل شاہین کا کا کہنا تھا کہ: ’ہم آزادانہ طور پر داعش سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘
2014 میں مشرقی افغانستان میں منظر عام پر آنے کے بعد داعش نے افغانستان کی شیعہ آبادی کو مسلسل حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ داعش کو امریکہ کے خلاف بڑے خطرے کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔
20 سالہ جنگ ختم کرتے ہوئے اگست کے آخر میں امریکی فوج کے انخلا اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بعد اختتام ہفتہ پر امریکہ اور طالبان کے درمیان پہلی بار بات چیت ہو رہی ہے۔ امریکہ واضح کر چکا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات انہیں تسلیم کرنے کے عمل کا آغاز نہیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان مذاکرات سے پہلے اسلام آباد میں پاکستانی حکام اور امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن کے درمیان دو دن کی مشکل بات چیت بھی ہو چکی ہے جس کا محور افغانستان بھی تھا۔
پاکستانی عہدے داروں نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ افغانستان کے نئے حکمرانوں کے ساتھ رابطہ قائم کرے اور اربوں ڈالر کے بین الاقوامی فنڈز جاری کرے تا کہ افغانستان کو معاشی بدحالی سے بچا جا سکے۔
افغانستان کے شیعہ رہنماؤں نے جمعے کے حملے کے بعد حکمران طالبان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ عبادت گاہوں کے لیے حفاظتی انتظامات مزید سخت کیے جائیں۔ دوسری جانب داعش نے مسجد پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ خود کش بمبار ایک اویغور مسلمان تھا۔
داعش کا کہنا تھا کہ اویغور مسلمانوں کو افغانستان سے نکالنے کا چین کا مطالبہ تسلیم کرنے پر مبینہ رضا مندی پر شیعہ مسلمانوں اور طالبان دونوں کو ہدف بنایا گیا۔ اگست کے اختتام پر غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد یہ مہلک ترین حملہ تھا۔
امریکہ میں قائم ولسن سنٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپی ڈائریکٹر مائیکل کگلمین کا کہنا ہے کہ ’جمعے کا حملہ مزید تشدد کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ زیادہ تر اویغور عسکریت پسندوں کا تعلق مشرقی ترکستان کی اسلامی تحریک کے ساتھ ہے۔ اس تحریک کو پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے ساتھ دہائیوں سے محفوظ ٹھکانہ حاصل ہے۔‘
جمعے کے حملے کے بعد اپنی ٹویٹ میں کگلمین کا کہنا تھا کہ’اگر داعش کا دعویٰ درست ہے تو افغانستان میں دہشت گردی سے متعلق چین کے خدشات جنہیں طالبان تسلیم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، میں اضافہ ہو گا۔‘