طالبان حکام کا کہنا ہے کہ جمعے کو افغانستان کے شمالی شہر قندوز میں شیعہ برادری کی ایک مسجد میں خود کش حملہ ہوا ہے جس میں کم از کم 46 افراد ہلاک جب کہ 140 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک آڈیو پیغام میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ شیعہ برادری کی مسجد پر ہونے والے اس حملے میں 46 کے قریب افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اپنے پیغام میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسی علاقے میں ’ان فسادیوں‘ کے ایک ٹھکانے کو اسلامی امارت کی فورسز نے ختم کر دیا ہے۔‘
قندوز میں شیعہ برادری کی مسجد میں ہونے والے خودکش حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی ہے۔
شدت پسند تنظیم داعش کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنے کا پیغام ان کے ٹیلی گرام چینلز پر دیا گیا ہے۔
اس سے قبل عینی شاہدین اور ہسپتال ذرائع نے حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 55 کے قریب بتائی تھی۔
دوسری جانب پاکستان نے قندوز میں مسجد پر خودکش حملے کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس حملے کی مذمت کی ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان حکومت اور عوام اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم ہلاک شدگان کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کرتے ہیں اور زخمی ہونے والوں کی جلد صحتیابی کے لیے دعا گو ہیں۔‘
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس سے قبل ٹوئٹر پر اس دھماکے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آج دوپہر میں ہمارے شیعہ ہم وطنوں کی مسجد میں دھماکہ ہوا ہے جو صوبہ قندوز کے دارالحکومت کے علاقے بندر ضلع خان آباد میں ہوا ہے۔‘
انہوں نے اس دھماکے میں ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد تو نہیں بتائی تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اس دھماکے میں ہمارے کئی ہم وطن شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔‘
#جنایت:
— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) October 8, 2021
ظهر امروز در منطقه خان اباد بندر مربوطات مرکز ولایت قندز در یک مسجد هموطنان اهل تشیع یک انفجار رخ داد، که از اثر آن تعداد هموطنان ما شهید و زخمی شدند.
مجاهدین قطعه خاص به محل حادثه رسیدند و بر رسی ها را اغاز کردند.
یہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں اب تک ہونے والا سب سے مہلک حملہ ہے۔
طالبان حکام کے مطابق قندوز کی مسجد میں نماز جمعہ کے موقع پر ہونے والا حملہ خود کش تھا۔
سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ قندوز ٹرینڈ کر رہا ہے جہاں مقامی افراد اور دیگر صارفین کی جانب سے دھماکے کے بعد کی تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کی جا رہی ہیں۔
دوسری جانب خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک ہسپتال کے اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہم ابھی تک 90 سے زیادہ زخمی اور 15 ہلاک شدگان کو وصول کر چکے ہیں لیکن یہ اعداد تبدیل ہو سکتے ہیں۔ ابھی مزید افراد کو ہسپتال لایا جا رہا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عینی شاہد زلمے الکوزئی نے اے ایف پی کو بتایا کہ جب وہ خون عطیہ کرنے کی غرض سے ہسپتال کی جانب بڑھے تو انہوں نے ’انتہائی دردناک‘ مناظر دیکھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ایمبولینسز ہسپتال سے جائے حادثہ کی جانب تیزی جا رہی تھی تاکہ ہلاک شدگان کو منتقل کیا جا سکے۔‘
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے اتوار کو بھی کابل کی ایک مسجد کے قریب دھماکہ ہوا تھا جس کی ذمہ داری عالمی دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول تھی۔
اس سے قبل سال 2017 اکتوبر میں داعش کے ایک حملہ آور نے کابل کی ایک شیعہ مسجد میں خود کش حملہ کیا تھا جس میں 56 افراد ہلاک جب کہ 55 زخمی ہو گئے تھے۔
جب کہ رواں سال مئی میں ہزارہ برادری کے کابل میں واقع سکولوں پر ہونے والے حملوں میں 85 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں اکثریت سکول جانے والی بچیوں کی تھی۔ اس حملے میں 300 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔