عالمی دہشت گرد تنظیم داعش نے کابل کی مسجد کے قریب اتوار کو ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔
شدت پسند تنظیم کی جانب سے یہ دعویٰ اس وقت کیا گیا جب چند گھنٹے قبل ہی طالبان نے کہا تھا کہ انہوں نے افغان دارالحکومت میں داعش خراسان کے ایک سلیپر سیل کو تباہ کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق داعش نے اپنے پروپیگنڈا میگزین عماق کے ذریعے بتایا کہ اتوار کو کیا گیا حملہ، جس میں کم از کم پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے، داعش کے ایک خودکش حملہ آور نے کیا تھا۔
اس دعوے سے قبل طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ ابتدائی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ داعش سے منسلک گروہ اس حملے کا ذمہ دار ہے۔
اگست میں کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان نے عبوری افغان حکومت قائم کی ہے، لیکن اسے داعش کی علاقائی شاخ داعش خراسان کے حملوں کا سامنا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا تھا کہ طالبان جنگجوؤں نے اتوار کی شام کابل کے شمال میں داعش کے ایک سیل کو نشانہ بناتے ہوئے کارروائی کی۔
مجاہد نے ٹوئٹر پر کہا: ’داعش کا مرکز مکمل طور پر تباہ ہوگیا اور اس میں موجود تمام ارکان ہلاک ہوگئے۔‘
عینی شاہدین اور اے ایف پی کے صحافیوں نے کارروائی کے وقت دارالحکومت میں دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنی تھیں جبکہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تصاویر میں ایک بڑا دھماکہ اور جائے وقوعہ پر بھڑکتی ہوئی آگ دکھائی گئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کابل کے رہائشی اور سرکاری ملازم عبدالرحمٰن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’بڑی تعداد میں‘ طالبان کی خصوصی فورسز نے ان کے پڑوس میں کم از کم تین گھروں پر حملہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ لڑائی کئی گھنٹوں تک جاری رہی اور گولیوں کی آواز نے انہیں پوری رات جگائے رکھا۔
عبدالرحمٰن کے مطابق طالبان نے کہا کہ وہ علاقے میں داعش کے جنگجوؤں کی تلاش میں ہیں۔ ’میں نہیں جانتا کہ کتنے مارے گئے یا گرفتار ہوئے لیکن لڑائی شدید تھی۔‘
جائے وقوعہ پر پیر کو اے ایف پی نے کئی طالبان بندوق برداروں کو پہرے پر کھڑے دیکھا اور لوگوں کو سڑک سے نیچے اپنی زمینوں پر جانے سے بھی روکا گیا۔
پولیس کے پک اپ ٹرکوں کو بھی سائٹ کی طرف جاتے ہوئے دیکھا گیا، جن میں سے ایک گھریلو اشیا بشمول فرنیچر، قالین اور کچن کا سامان لے کر واپس آیا۔
یہ کارروائی اتوار کے دھماکے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر ہوئی، جس میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی والدہ کی یاد میں عیدگاہ مسجد میں منعقدہ ایک دعائیہ تقریب کو نشانہ بنایا گیا، جو گذشتہ ہفتے انتقال کر گئی تھیں۔
سرکاری کلچرل کمیشن کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ پانچ افراد ہلاک اور 11 زخمی ہوئے جبکہ ہلاک ہونے والوں میں عام شہری اور طالبان دونوں شامل تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے دھماکے کے سلسلے میں تین افراد کو گرفتار بھی کیا ہے۔
حکام کے مطابق بم مسجد کے داخلی دروازے پر رکھا گیا تھا اور دھماکہ اس وقت ہوا جب لوگ ذبیح اللہ مجاہد اور ان کے اہل خانہ سے تعزیت کرنے کے بعد واپس جا رہے تھے۔
ایک عینی شاہد نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ اتوار کو داخلی دروازے پر حملہ خودکش تھا۔
مسجد کے مشرقی دروازے کے بالکل باہر، زمین پر ایک سیاہ نشان نظر آرہا تھا جہاں دھماکہ ہوا تھا اور ایک دیوار میں گولیوں کے سوراخ دیکھے جا سکتے تھے۔
عینی شاہد نے بتایا کہ طالبان کے ارکان کا ایک گروپ، جس میں سینیئر شخصیات بھی شامل ہیں، مسجد دھماکے کے بعد آگ کی لپیٹ میں آگئے، جس میں دو افراد ہلاک ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دھماکے کے بعد الجھن میں دو طالبان یونٹوں نے غلطی سے ایک دوسرے پر فائرنگ کی، تاہم وزارت داخلہ کے ترجمان قاری سید خوستی نے اس بات کی تردید کی کہ وہاں کوئی فائرنگ ہوئی تھی۔
انہوں نے بتایا: ’ایک خودکش حملہ آور نے اپنے دھماکہ خیز مواد کو ہجوم کے درمیان دھماکے سے اڑا دیا، جس سے تین افراد ہلاک اور ایک درجن زخمی ہوئے۔‘
طالبان اور داعش کی افغانستان شاخ، جسے داعش خراسان کہا جاتا ہے، ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔
اقوام متحدہ نے بھی افغانستان میں مسجد میں ہونے والے حملے کی مذمت کی ہے۔