چاند استعارے تک رہے تو سب ٹھیک رہتا ہے۔ چاند کواستخارے میں کھینچ لاؤ تو سنگین اختلاف ہو جاتا ہے۔ ایک ہی تماشا ہے جو ہر سال ہوتا ہے۔
مفتی پوپلزئی کہتے ہیں ’یہ چاند ہے۔‘ مفتی منیب کہتے ہیں ’چہرہ ترا۔‘ بیچ میں انشا جی سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ چپ رہتے ہیں اور پھر ہنس دیتے ہیں۔ مگر کب تک؟ آوازیں اتنی اونچی ہو چکی ہیں کہ انشا کے جی کا شہر میں لگنا مشکل ہو گیا ہے۔
فواد چوہدری کو سائنس کا قلم دان یہ سوچ کر دیا گیا کہ سائنسی فارمولوں سے نابلد شخص خواستہ نخواستہ چپ رہ جائے گا، مگر فواد چوہدری تو کہتے ہی اُسے ہیں جو کسی بھی طرح کے حالات میں شمعِ محفل اپنے آگے جمائے رکھنا جانتا ہو۔
شاہ کے مصاحب تھے تو ہتھیلی پہ سرسوں جماتے تھے۔ وزارت اطلاعات ملی تو سینوں پہ مونگ دلنے لگے۔ اب وزارت سائنس میں ہیں تو آئے دن نیا چاند چڑھائے رکھتے ہیں۔ قلمدان سنبھالتے ہی انہوں نے سوچا کہ جب کئی چاند ہیں سرِ آسماں، تو ایک چاند میرا بھی کیوں نہ ہو۔ وہاں آسمان پر وزیر نے اپنے حصے کا چاند ٹانکا اور یہاں زمین پر بھونچال آ گیا۔
جس کا پہلا فائدہ یہ ہوا کہ کم از کم اس ایک نکتے پر مفتی منیب اور مفتی پوپلزئی کا اتفاق ہو گیا کہ ہم کسی سائنسی تشریح کو قبول نہیں کریں گے۔
بظاہر چاند والا وختا ایک ایسے طبقے نے ڈال رکھا ہے جو سائنسی آنکھ کے بجائے انسانی آنکھ سے چاند دیکھنے پر اصرار کر رہا ہے۔ سچ مگر یہ ہے کہ اس چاند کا تعلق آنکھ سے کم اور ناک سے زیادہ ہے۔
مفتی منیب الرحمن نے اعلان کر دیا ہے ہم دنیا بھر کی سائنس کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ کوئی ستم ظریف پوچھ سکتا ہے کہ پھر چشمہ ناک کی نوک پرہوتا ہے اور چاند دیکھنے کے لیے آنکھ دوربینی توپ کے دہانے پر کیوں رکھتے ہیں؟
عثمانی سلطان سلیم ثالث نے ترک افواج کو یونیفارم پہنانے اور جدید اسلحے سے لیس کرنے کی بات کی تو فتویٰ ساز کارخانوں کی چمنیوں سے اٹھتے دھویں میں شدت آ گئی۔ معاملہ سہ آتشہ ہو گیا جب استنبول میں چھاپے خانے بھی کھلنا شروع ہو گئے۔ شیخ الاسلام نے فرمایا ’ہم دنیا جہاں کی سائنس کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں!‘
قاضی نے فیصلہ دیا، پریس مشینوں پر مقدس مواد شائع کرنا مذہب کی توہین ہے۔ مفتیِ اعظم نے کہا ’ہم یہود ونصاری کی مشابہت اختیار کرکے اپنی عاقبت خراب نہیں کریں گے۔‘
آج کی دنیا میں یہ تصور کرنا بھی کتنا مشکل ہے کہ پہلے وقتوں میں کبھی پبلشرز کو بھی پھانسیاں ہوئیں، چھاپے خانے نذر آتش ہوئے اور ٹیکنالوجی پر اصرار کی وجہ سے اس قدر سیاسی خلفشار پیدا ہوا کہ خلیفہ وقت جان سے گزر گیا۔
ایسا ہوا ہے، مگر ضرورت سے انکار اور سہولت سے فرار کب ممکن ہے۔ علما نے خاموشی سے ہتھیار ڈالنا شروع کر دیے۔ اول کہا گیا کہ چلو چھاپے خانے کھول لو مگر مذہبی مواد ان مشینوں پر شائع مت کرو۔ وقت گزر گیا، فتوے کہیں پیچھے رہ گئے اور اب کاروباری مراکز تو کیا خود دینی اداروں کے اندر جدید ترین چھاپے خانے کھل گئے۔
اندازہ کیجیے کہ اس خطے میں ریڈیو اور لاؤڈ سپیکر تک بھی کبھی حرام رہ چکے ہیں۔ لاؤڈ سپیکر بیچارے کے ساتھ تو جو سلوک ہوا اس پر لاؤڈ سپیکر آج بھی بے طرح ہنس دیتا ہو گا۔
استنبول کے چھاپہ خانوں کی طرح اول اس کو بھی مکمل طور پر حرام قرار دیا گیا۔ اس شیطانی آلے نے بھی اپنی افادیت ثابت کی توعلما نے پسپائی اختیار کی۔ لاؤڈ سپیکر کے استعمال کوجائز قرار دے دیا گیا مگراس شرط کے ساتھ کہ نماز اور تلاوت کے لیے استعمال نہیں ہو گا۔ اس کے لیے کم وبیش وہی دلیل دی گئی جو آج چاند کے معاملے پر چاند کمیٹی والے دے ر ہے ہیں۔
فرمایا، ’آواز جب لاؤڈ سپیکر سے ہو کر آتی ہے تو وہ حضرتِ انسان کی اپنی آواز نہیں رہتی، وہ مصنوعی ہو جاتی ہے جبکہ تلاوت و نماز میں براہ راست آواز سننے کا حکم ہوا ہے۔‘
مگر وہی بات کہ ضرورت سے کون بھاگ سکا ہے اور سہولت سے منہ موڑنا کس کے بس میں رہا ہے۔ فتووں کے دفتر ایک طرف رہ گئے اور کان پھاڑ لاؤڈ سپیکر کچھ ایسے چھا گئے کہ مسجد کے سائے میں گھر لینا ہی مشکل ہو گیا۔ بلکہ اب تو لاؤڈ سپیکر کے غیر ضروری استعمال پر بات کرو تو کہتے ہیں یہ اسلام کے خلاف سازش ہے۔
ٹی وی کے خلاف ابھی کل تک بھی تحریکیں چل رہی تھیں۔ آج کا منظر یہ ہے کہ علمائے کرام ٹی وی شو تک رسائی کے لیے اوور ٹیک مار رہے ہیں۔ کچھ یوٹیوب سے گولڈن بٹن وصول کر رہے ہیں اور ’شیطانی چرخے‘ پراپنے فالوورز کی تعداد بڑھنے پر رب کا شکر ادا کر رہے ہیں۔
تصویر کے ساتھ بھی ہماری روایت نے یہی سلوک کیا ۔ پہلے سراسر حرام تھی پھر شناختی کارڈ کے لیے جائز ہو گئی۔ شرط ٹھری کہ شناختی کارڈ نماز کے دوران جیب میں نہیں رکھا جائے گا۔ عورت شناختی کارڈ کے لیے چہرہ کھول کے تصویر نہیں بنوائے گی۔
عام حالات میں آدھے دھڑ کی تصویر جائز ہوئی، پھر پورے دھڑ کی ہوئی اور پھر رفتہ رفتہ ہستی کا سامان ہو گئی۔ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا فارمولا بےاولاد جوڑوں کے لیے ایک بڑی سائنسی سہولت تھی، مگر روایت آڑے آ گئی۔
یہاں بھی وہی چاند اور لاؤڈ سپیکر والی دلیل دی گئی کہ یہ افزائشِ نسل کا غیر فطری طریقہ ہے۔ مرد اور عورت کا تولیدی مادہ حاصل کرنا، اسے کسی طبی مرحلے سے گزارنا، پھرعورت کے رحم میں رکھنا یہ سب تو ایک مصنوعی بندوبست ہے۔ مگر وہی بات، فتوے کسی سوکھے ہوئے پھول کی طرح کتابوں میں دم توڑ گئے اورمدت سے جو بےاولاد تھے ان کے ویرانوں میں چپکے سے بہار آ گئی۔
کہیں کوئی حوالہ نظر سے گزرا نہیں، مگر کہا جاسکتا ہے کہ جب اول اول گھڑی کے مطابق نماز پڑھنے کی روایت پڑی ہو گی تو ایک نقطۂ نظر ضرور یہ رہا ہو گا کہ گھڑی دیکھنے کے بجائے سورج کی چال دیکھنی چاہیے۔ لیکن وقت کے فیصلے کے مطابق ایسا کوئی بھی نقطۂ نظر بھولی بسری داستان ہے اور گھڑی پر سب کا اتفاق ہے۔
اب ضد ہے کہ عید کا چاند ننگی آنکھ سے دیکھیں گے۔ یہ سن کرچاند کتنا شرما جاتا ہو گا۔ آنکھ ننگی توحالانکہ اب بھی نہیں ہوتی۔ آگے دوربین کے عدسے ہوتے ہیں، اس کے پیچھے چشمہ ہوتا ہے، اس کے بعد آنکھ آتی ہے۔ یعنی آنکھ نے کم از کم بھی لٹھے کا ایک کُرتا اور اس کے نیچے آستین والا بنیان پہن رکھا ہوتا ہے۔
مگر ضرورت کی کوکھ سے جنم لینے والی ٹیکنالوجی کا فیصلہ بہت بے رحم ہوتا ہے۔ یہ بحث وتکرار یہیں رہ جائے گی اور بے لباسی پر اصرار کرنے والی آنکھ مخملیں کمبل اوڑھ کر ماضی کے کسی شبستان میں سو جائے گی۔
لوگ سوچا کریں گے ’ماضی میں ایسی بھی کوئی بحث کبھی رہی ہے۔ اچھا واقعی؟‘