وزیراعظم عمران خان نے کچھ دن پہلے اپنی ایک تقریر میں رحمت للعالمین اتھارٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس اتھارٹی کا ایک مقصد بیرونی دنیا میں اسلام کا تصور بہتر کرنا اور سیرت نبوی کی تشہیر کرنا ہے جبکہ دوسرا مقصد پاکستان میں بچوں اور بڑوں کو سیرتِ نبوی کے مطابق زندگی گزارنا سکھانا ہے۔
انہوں نے اپنی اس تقریر میں بچوں کے کارٹون اور ان کے بچوں پر پڑنے والے اثرات کی بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم میڈیا کو روک نہیں سکتے لیکن بچوں کو ایک چوائس تو دے ہی سکتے ہیں۔
ان کی اس بات سے گمان ہوتا ہے جیسے وہ اس اتھارٹی کے تحت بچوں کے لیے کارٹون بنانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ ایسا ہو جائے تو کتنا اچھا ہو لیکن مسئلہ وہی ہے کہ خان صاحب کہہ بہت کچھ جاتے ہیں، کرتے بہت کچھ نہیں ہیں۔
ہمارے بچوں کے بچپن بھی ہمارے بچپن کی طرح غیر ملکی کارٹون دیکھتے ہوئے گزر رہے ہیں۔ جیسے خان صاحب نے ترکی سے ارطغرل درآمد کیا تھا اسی طرح اس سے پہلے وہاں سے کچھ کارٹون بھی درآمد ہو چکے ہیں۔ ان میں ایک کارٹون ’جان‘ بہت مشہور ہے۔
دو سال پہلے چین کا بھی ایک کارٹون ’تھری ڈراپس آف بلڈ‘ پی ٹی وی پر دکھایا گیا تھا بالکل ویسے ہی جیسے ہمیں بچپن میں غیر ملکی کارٹون اردو میں دکھائے جاتے تھے۔
خیر، اس دور میں اگر کارٹون بنانا ممکن نہیں تھا تو کم از کم پراگرام تو بن ہی جایا کرتے تھے۔
ایک پراگرام ’کلیاں‘ سب کو یاد ہے جس میں ہم نے فاروق قیصر کے مشہورِ زمانہ کردار انکل سرگم اور ماسی مصیبتے دیکھے تھے۔
اس کے بعد 90 کی دہائی میں ’عینک والا جن‘ بھی نشر ہوا تھا۔ اس کے بعد بچوں کے لیے پاکستان میں اس جیسا کوئی پروگرام کبھی نہیں بنا۔
ایک ٹی وی پراگرام ’مینا‘ بھی میری نسل کی یادوں میں زندہ ہے۔ وہ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے ایک پراجیکٹ کے تحت جنوبی ایشیا کے بچوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس کا مقصد بچوں کو جنس، صحت اور سماجی تفریق کے بارے میں سکھانا تھا۔
2005 میں کیپٹن سیف گارڈ کا کردار بھی مشہور ہوا تھا۔ اس کے بعد ڈیٹول کی طرف سے بھی ایک فلم بنائی گئی تھی۔ یہ نجی پراڈکشنز تھیں۔
پچھلے کچھ سالوں میں چند اینی میٹد فلمیں بھی ریلیز ہوئی ہیں جیسے کہ ’تین بہادر،‘ ’اللہ یار اینڈ دا لیجنڈ آف مارخور،‘ ’دا ڈونکی کنگ‘ تاہم ان کی رسائی ایک مخصوص طبقے تک ہی محدود رہی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نئی میڈیا ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ نجی ادارے بچوں کے لیے اصلاحی و نظریاتی کارٹون اور اینی میشن سیریز بنا رہے ہیں جو یو ٹیوب اور دیگر پلیٹ فارم پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
ان میں ایک کارٹون دانیال نورانی کا ’قائد سے باتیں‘ ہیں۔ اس کارٹون میں ایک ننھی بچی زینب پاکستانی معاشرے کے مختلف مسائل دیکھتی اور محسوس کرتی ہے۔
قائدِاعظم اس کے آئیڈیل ہیں۔ ان کا ایک پورٹریٹ اس کے کمرے میں لٹکا ہوا ہے۔ وہ اپنے خوابوں میں ان سے باتیں کرتی ہیں۔
جو بات اسے کوئی نہیں سمجھا پاتا وہ بات اسے قائدِاعظم آسان الفاظ میں سمجھاتے ہیں اور اسے درپیش معاشرتی مسائل کا نظریہ پاکستان کی روشنی میں حل بھی بتاتے ہیں۔
مولانا الیاس قادری کی جماعت دعوتِ اسلامی کی طرف سے بھی یوٹیوب پر بچوں کے لیے ایک چینل چلایا جا رہا ہے۔ اس چینل پر کارٹون کے ذریعے بچوں کو اسلامی تعلیمات سکھائی جا رہی ہیں۔
ان کے کارٹون کے دو اہم کردار ہیں، ایک غلام رسول اور دوسری اس کی بہن کنیز فاطمہ۔ غلام رسول کو ہر حالت میں پڑھنے والی دعا ازبر ہے۔ اسے ہر موقع کی مناسبت سے معاشرتی اور اسلامی آداب بھی معلوم ہیں۔
وہ ہے تو چھوٹا سا بچہ لیکن ایسے لگتا ہے جیسے اس میں کسی بزرگ عالمِ دین کی روح موجود ہے۔ وہ ہر کارٹون میں کنیز فاطمہ اور دیگر بچوں کو مختلف صورت حال میں اسلام کے اصولوں کے مطابق عمل کرنا سکھاتا ہے۔
یہ کام بھی سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے جہاں تک پاکستان کے ہر بچے کو رسائی حاصل نہیں ہے۔
پاکستان کو اپنے سرکاری ٹی وی پر پاکستان کے بنائے گئے کارٹون اور بچوں کے پروگرام مطلوب ہیں جو بغیر کسی مخصوص نظریے کے ملک کے ہر شہری کے بچوں کے لیے بنائے گئے ہوں۔
یہ ناممکن نہیں ہے۔ پاکستان میں کارٹون بھی بن رہے ہیں اور اینی میشن بھی۔ اگر نہیں بن رہا تو حکومت کا ارادہ نہیں بن رہا ورنہ اس کام کے لیے بجٹ مختص کرنا، ٹیم ڈھونڈنا اور اس سے کام کروانا مشکل نہیں ہے۔
خان صاحب اپنی ہر تقریر میں چین کی بات کرتے ہیں۔ چین نے ایسے ترقی کی۔ ایسے غربت ختم کی۔ ایسے سپر پاور بنا۔ چین نے یہ سب کیا ہے اور وہ اس لیے کہ اسے بہت پہلے پتہ چل گیا تھا کہ ترقی کرنے کے لیے تقریر کرنے کے بعد کچھ کرنا بھی پڑتا ہے۔
ہم دعا ہی کر سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی اس تقریر میں رحمت للعالمین اتھارٹی کے تحت بچوں کے لیے کارٹون بنانے کا جو اشارہ دیا ہے، وہ اس پر عمل بھی کر ڈالیں تاکہ پاکستان کی کوئی نسل تو لوکل پروڈکشن میں بنا کارٹون دیکھ سکے۔