رحیم یار خان کی ڈسٹرکٹ جیل میں نو سال کا ایک بچہ رواں برس جولائی کی 25 تاریخ سے قید ہے جس پر الزام ہے کہ اس نے ایک ساڑھے پانچ سال کے بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے۔
اس واقعے کی ایف آئی آر رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور کے تھانہ شیدانی میں دفعہ 377 اور 377 ب کے تحت درج کی گئی ہے اور اس بچے کی ضمانت اب تک نہیں ہوسکی ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق مدعی محمد اصغر کا کہنا ہے کہ 24 جولائی کو ان کا ساڑھے پانچ سالہ بیٹا دوپہر ایک بجے گھر سے باہر نکلا اور واپس نہیں آیا۔ وہ اسے ڈھونڈنے گھر سے نکلے تو ملزم کے مکان سے ان کے بیٹے کے چیخنے اور رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔
ایف آئی آر کے مطابق ’جب انہوں نے مکان کے اندر جا کر دیکھا تو ایک کمرے میں ملزم ان کے بیٹے کے ساتھ بدفعلی کر رہا تھا اور ان کا بیٹا برہنہ تھا۔ جبکہ ملزم کا بڑا بھائی وہیں موجود تھا۔ انہیں دیکھتے ہی دونوں ملزمان موقع سے فرار ہو گئے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے مقدمے کے مدعی اور متاثرہ بچے کے والد محمد اصغر سے متعدد بار رابطے کی کو شش کی مگر ان کا فون مسلسل بند تھا۔
دوسری جانب ملزم کے بھائی نے بتایا جن کا نام ایف آئی آر میں درج ہے کہ ان کے بھائی کو بلا وجہ پھنسایا گیا ہے۔ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا اور محمد اصغر نے مجھے بھی نامزد کر دیا ہے۔
نو سالہ ملزم بچے کے وکیل لطف اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ضمانت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پولیس نے اس بچے کا چالان سیشن کورٹ میں جمع کروایا۔ پہلے جج صاحب بیمار ہو گئے، پھر تاریخ ملی۔ اس کے بعد جج صاحب نے کہا کہ یہ میرا ٹرائل نہیں بنتا، یہ علاقہ مجسٹریٹ کا ٹرائل بنتا ہے، اس لیے آپ درخواست واپس لیں اور مجسٹریٹ کے پاس جائیں۔‘
وکیل کے مطابق: ’اس بات کا فیصلہ ہی نہیں ہو پا رہا تھا کہ درخواست ایڈیشنل جج کے پاس آئے گی یا علاقہ مجسٹریٹ کے پاس جائے گی۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’میں نے دوسری درخواست پھر ایڈیشنل سیشن جج کے پاس ہی جمع کروائی ہے، یہ سوچ کر کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔‘
لطف اللہ کا کہنا تھا کہ ’مجسٹریٹ کے پاس اس کیس کا چالان نہیں ہے۔ پولیس والوں نے چالان ایڈیشنل سیشن جج کو جمع کروایا تھا اور انہوں نے ایف آئی آر میں جرم 377 ب کے تحت تحریر کیا جو زیادتی کی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پہلی سماعت 29 ستمبر کو ہوئی جس پر جج صاحب نے چھ اکتوبر کی تاریخ دے دی۔ چھ اکتوبر کو معلوم ہوا کہ جج کا تبادلہ ہوگیا ہے، اس لیے سماعت کی تاریخ 12 اکتوبر رکھ دی گئی، تاہم منگل کو بھی ملزم کی ضمانت نہ ہوسکی کیونکہ عدالت میں آنے والے جج نئے تھے۔ وہ دیر سے آئے اور دوسرا مدعی کا وکیل بھی غیر حاضر تھا، جس کی وجہ سے کیس کی سماعت نہیں ہوئی اور عدالت نے اگلی سماعت 21 اکتوبر کو رکھی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ملزم بچے کی ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹ بھی آچکی ہے، جس میں ڈی این اے میچ نہیں ہوا۔
تھانہ شیدائی کے ایس ایچ او راؤ شہزاد نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بچے کا ڈی این اے ٹیسٹ ہم تب بھیجتے جب ہمیں نمونوں میں نطفے کی موجودگی ملتی۔ اس کیس میں وقوعے کے بعد جب متاثرہ بچے کا ڈاکٹر سے چیک اپ کروایا گیا تو ڈاکٹر نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ بچے کے ساتھ غیر فطری جنسی عمل ہوا ہے لیکن جب ہم نے نمونے لیے تو اس میں نطفہ موجود نہیں تھا، جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جنسی زیادتی کرنے والا بچہ خود بالغ نہیں ہے، اس لیے رپورٹ بھی منفی آئی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں ہم نے دفعہ 377 اور دفعہ 377 ب دونوں لگائی ہیں جن کی سزا زیادہ ہے جبکہ تمام شواہد کی بنیاد پر چالان بنا کر مجسٹریٹ کے پاس جمع کروا دیا گیا ہے جبکہ بچے کی ضمانت ایڈیشنل سیشن جج کے پاس ہوگی۔
24 جولائی کو موضع امام بخش کے رہائشی غلام اصغر کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر میں نو سالہ بچے کے ساتھ ساتھ اس کے 20 سالہ بھائی کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا: ’ان (مدعی) کا کہنا ہے کہ میرا بھائی ان کے بیٹے کے ساتھ بدفعلی کر رہا تھا اور میں وہاں پہرا دے رہا تھا جبکہ میں اس وقت وہاں موجود ہی نہیں تھا بلکہ شہر سے باہر تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد دبئی میں رہتے ہیں اور وہ اپنی والدہ کے ساتھ یہاں رہتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کا اور ان کے بھائی کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی کیا گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے بھائی کو جیل میں بالغ افراد کے ساتھ رکھا گیا ہے حالانکہ اس پر ابھی کوئی جرم ثابت نہیں ہوا۔ ہم عدالتوں کے چکر لگا لگا کر تھک گئے ہیں لیکن ان کی ضمانت نہیں ہوسکی۔
ان کا کہنا تھا کہ محمد اصغر اور ان کا خاندان اثرو رسوخ والے لوگ ہیں اور وہ ہمیں جان بوجھ کر پھنسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دوسری جانب ڈسٹرکٹ جیل رحیم یار خان کے سپرنٹنڈنٹ بابر شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس بات کی تصدیق کی کہ ملزم بچہ ان کے پاس ڈسٹرکٹ جیل میں قید ہے لیکن اسے بالغوں کے ساتھ نہیں رکھا گیا۔
بابر شاہ نے بتایا کہ ویسے تو بچوں کی جیل دو ہیں۔ ایک بہاولپور اور دوسری فیصل آباد، لیکن ملزم بچے کو تب منتقل کیا جائے گا جب اس پر الزام ثابت ہو جائے گا اور عدالت اسے سزا سنائے گی۔ لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ جیلوں میں نابالغ ملزمان کے لیے الگ سیل بنے ہوتے ہیں اور اس بچے کو بھی وہیں رکھا گیا ہے۔
قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
ایڈوکیٹ احمر مجید نے اس کیس کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس کیس میں دو تین مسئلے ہیں۔ ان کے مطابق: ’ایک تو یہ کہ پاکستان پینل کوڈ کی سیکشن 82 کے تحت اگر 10 سال سے کم عمر بچے نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہو سکتی، اس لیے اس بچے کی ضمانت تو دور کی بات اس کے خلاف تو مقدمہ ہی نہیں بنتا لیکن اگر پراسیکیوشن یہ ثابت کر سکے کہ وہ 11 سال کا ہے تو معاملہ کچھ اور ہوجاتا ہے لیکن اس میں بھی ضمانت اس بچے کا قانونی حق ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’قانوناً ملزم بچے کو جیل میں بالغوں کے ساتھ بالکل نہیں رکھا جاسکتا کیونکہ جوینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 کے تحت کسی بھی بچے کو کسی بھی صورت میں کسی جیل میں نہیں رکھا جائے گا، انہیں نابالغ ملزمان کی بحالی کے سینٹرز میں رکھا جائے گا لیکن بدقسمتی سے ایسا کوئی سینٹر موجود نہیں ہے، اس لیے ابھی بھی بچوں کو جیلوں میں سپیشل وارڈز کے اندر رکھا جاتا ہے۔‘
احمر مجید کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں لگائی گئی دفعہ 377 ب ایک الگ جرم ہے جسے 2016 میں پی پی سی میں شامل کیا گیا تھا اور یہ چائلڈ سیکچول ایبیوز کہلاتا ہے۔ اس میں مختلف چیزیں آجاتی ہیں کہ اگر کسی بچے کے ساتھ کوئی جنسی جذبات کا اظہار کرے گا تو وہ چائلڈ سیکچول ایبیوز کا جرم بنے گا اور اس کی سزا 14 سے 20 سال جبکہ 10 لاکھ روپے جرمانہ ہے اور دفعہ 377 غیر فطری عمل کے زمرے میں آتی ہے، جسےان نیچرل آفینس کہا جاتا ہے۔