پولیس کا کہنا ہے کہ کراچی کی ساحلی پٹی کے قریب واقع پوش علاقے کلفٹن اور ڈیفنس میں دو مقامی گروپ موسم سرما میں ڈکیتیوں اور راہزنی کی وارداتوں میں سرگرم ہوجاتے ہیں، جبکہ ایک تیسرے گروپ کے آدھے سے ذیادہ کارندوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جن کے بیشتر ارکان کا تعلق افغانستان سے ہے۔
سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) کراچی ساؤتھ زبیر شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان گروپوں کے خلاف پولیس کا کریک ڈاؤن جاری ہے، پولیس کامیابی کے قریب ہے اور جلد ہی وہ قانون کے شکنجے میں ہوں گے۔
پولیس حکام کے مطابق: ’نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں افغانستان میں سردی بڑھنے کے باعث یہ ڈکیت گروپ فعال ہوجاتے ہیں اور یہاں آکر وادارتیں کرتے ہیں۔‘
حکام نے بتایا کہ 12 ممبران پر مشتمل ’کُرکُرے گروپ‘ کے چھ کارندوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے جبکہ باقی فرار ہیں۔ بنیادی طور پر یہ گروپ افغانستان اور ایران سے آنے والے لوگوں پر مشتمل ہے جن میں سے ذیادہ تر افراد فارسی زبان بولنے والے ہیں۔
پولیس نے بتایا کہ یہ افغانی اور ایرانی لڑکے لوٹ مار اور قزاقی کی غرض سے پاکستان آتے ہیں اور کراچی کے پوش علاقوں میں ایک ماہ تک وارداتیں کرنے کے بعد واپس اپنے ملک فرار ہوجاتے ہیں، اسی لیے انہیں پکڑنا مشکل ہوتا ہے۔
پولیس کے مطابق: ’کُرکُرے گروپ کے کارندے کراچی کے مختلف گیسٹ ہاؤسز میں قیام کرتے ہیں اور وارداتوں کے لے رینٹ اے کار سروسز سے گاڑیاں کرائے پر لیتے ہیں۔ اس گروپ کے ممبران کے ساتھ ان کے کچھ سہولت کاروں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پولیس نے بتایا کہ رواں سال اس گروپ کی جانب سے کئی بڑی وارداتیں کی گئیں مگر فی الحال یہ فعال نہیں ہے کیوں کہ اس کے آدھے کارندے گرفتار ہوچکے ہیں اور آدھے فرار ہیں، جس سے یہ گروپ ٹوٹ چکا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق اس طرح کے گروپس کو پھر سے سرگرم ہونے میں کم از کم 10 ماہ سے ایک سال تک کا عرصہ لگ جاتا ہے۔
پولیس نے کراچی کے ضلع جنوبی میں ڈکیتی اور لوٹ کھسوٹ کی وارداتیں کرنے والے کُرکُرے گروپ کے علاوہ دو اور گروپوں کا بھی پتہ لگایا ہے، جو کراچی کے پوش علاقوں کے علاوہ ضلع شرقی اور وسطی کے علاقوں میں بھی وارداتیں کرتے ہیں۔ ان گروپس میں سے ایک کا نام ’شاہد ورکر گروپ‘ ہے جبکہ دوسرے گروپ کا نام ابھی تک واضح نہیں۔
ایس ایس پی ساؤتھ زبیر شیخ کے مطابق: ’ان دونوں گروپس کے کارندے مقامی افراد ہیں، جن میں سے کچھ کا تعلق پنجاب سے بھی ہے۔ ذیادہ تر وارداتیں دن کی روشنی میں کی جاتی ہیں۔ ان کا کوئی مخصوص طریقہ کار نہیں۔ یہ گروپس ذیادہ تر ایسے گھروں میں وارداتیں کرتے ہیں، جن کے دروازے انہیں کھلے مل جاتے ہیں اور گھروں کے اندر داخلہ آسان ہوتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ تاثر غلط ہے کہ ڈیفنس اور کلفٹن میں ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ سال ڈکیتی کی وارداتوں کی 52 ایف آئی آرز درج ہوئیں جبکہ اس سال ستمبر کے آخر تک صرف 29 وارداتوں کی ایف آئی آرز درج ہوئیں، جن میں سے 45 فیصد کا چالان ہوچکا ہے یعنی تحقیقات کے بعد انہیں عدالت میں پیش کردیا گیا ہے۔‘
زبیر شیخ کا مزید کہنا تھا: ’اصل بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا ذیادہ ایکٹو ہوگیا ہے۔ اس وجہ سے ایک بھی واردات ہوتی ہے تو یہ موضوع سوشل میڈیا پر سرگرم ہوجاتا ہے۔ اس وقت پولیس کا ڈکیت گروپوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن جاری ہے، جس وجہ سے آج کل کوئی واردات نہیں ہورہی۔‘