صوبہ پنجاب کی سب سے بڑی جامعہ پنجاب یونیورسٹی کے تین شعبوں میں رواں سال پی ایچ ڈی کورسز شروع نہیں ہوسکیں گے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پی ایچ ڈی میں داخلوں کے لیے انٹری ٹیسٹ میں شعبہ کمیونیکیشن سٹڈیز، انسٹیٹیوٹ آف ایڈمنسٹریٹر سائنسز اور شعبہ سپورٹس سائنسز کے تمام امیدوار فیل ہوگئے اور نتائج صفر جبکہ شعبہ ریاضی میں صرف پانچ امیدوار کامیاب ہونے پر اس سال پی ایچ ڈی کورسز شروع کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
امیدواروں نے الزام لگایا ہے کہ ’اس بار این ٹی ایس کی بجائے یونیورسٹی نے خود انٹری ٹیسٹ لیے اور پی ایچ ڈی پروگرامز شروع کرنے کی مخالف لابی نے سوالیہ پیپرز ہی آؤٹ آف سلیبس بنا دیے۔ اس بارے میں انتظامیہ کو ٹیسٹ کے دوران ہی شکایت کی گئی تھی۔‘
دوسری جانب یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق مختلف شعبوں میں ایم فل کے بعد پی ایچ ڈی کورسز میں داخلوں کے لیے انٹری ٹیسٹ یونیورسٹی پالیسی کے مطابق لیے گئے تھے۔ جن میں تین شعبوں میں تمام امیدوار فیل قرار پائے اور کوئی بھی امیدوار کم از کم 70فیصد نمبر حاصل نہیں کر پایا۔
انٹری ٹیسٹ میں تمام امیدوار کیسے فیل ہوگئے؟
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ کمیونیکیشن سٹڈیز میں پی ایچ ڈی میں داخلے کا انٹری ٹیسٹ دینے والے امیدوار عمر فاروق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلے نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس) کے زریعے انٹری ٹیسٹ لیے جاتے تھے جو امتحانات لینے میں ملک کا قابل اعتماد ادارہ ہے۔ این ٹی ایس کی جانب سے لیے گئے ٹیسٹوں میں کبھی ایسا رزلٹ نہیں آیا۔ مگر اس سال پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ نے خود یہ ٹیسٹ لیے تھے۔ جن میں آؤٹ آف سلیبس سوالیہ پرچے بنا دیے گئے۔ لہذا کیسے ممکن ہے کہ ایم فل پاس کرنے والے تمام امیدوار ہی ناکام ہوجائیں؟‘
عمر نے بتایا کہ ’ہماری اطلاعات کے مطابق ان شعبوں کے پروفیسرز کی ایک لابی چاہتی ہے کہ پی ایچ ڈی کورسز بند کیے جائیں۔ اس لیے انہوں نے سوالیہ پرچے ایسے بنائے کہ کوئی بھی امیدوار 70 فیصد نمبر حاصل نہیں کرسکا۔‘
پنجاب یونیورسٹی کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’تین شعبوں کمیونیکیشن سٹڈی، ایڈمنسٹری اور سپورٹس میں سو سو سے زائد امیدواروں نے پی ایچ ڈی میں داخلہ کا انٹری ٹیسٹ دیا جن میں سے کوئی بھی امیدوار کامیاب نہیں ہوا۔ یہ تاثر غلط ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ میں کسی لابی کی وجہ سے سولیہ پرچے آؤٹ آف سلیبس تھے۔ کیونکہ اگر یونیورسٹی پی ایچ ڈی کورسز بند کرنا چاہتی تو داخلوں کا اشتہار نہ دیا جاتا۔‘
کیا ایسے نتائج پہلی بار آئے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں پروفیسر خالد محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس طرح کے نتائج شاید پہلی بار سامنے آئے ہیں۔ کیونکہ اس سے قبل نتائج خراب ضرور ہوتے ہیں مگر ایسا نہیں کہ کوئی امیدوار بھی پاس نہ ہو۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ویسے تو ہمارے ہاں نظام ایسا ہے کہ بی اے میں بھی ڈیڑھ لاکھ سے زائد امیدواروں میں سے صرف 40 فیصد ہی پاس ہوتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امیدوار سنجیدہ نہیں ہوتے۔ وہ داخلہ بھیج دیتے ہیں لیکن تیاری نہیں کرتے۔‘
ڈاکٹر خالد محمود کے بقول اس بار بھی صرف یہ تین شعبے ہی نہیں بلکہ شعبہ ریاضی میں صرف پانچ، اسی طرح دیگر کئی شعبوں میں پی ایچ ڈی انٹری ٹیسٹ میں چند امیدوار ہی 70 فیصد نمبر حاصل پائے ہیں۔
کیا اب پی ایچ ڈی کورسز شروع نہیں ہوں گے؟
انہوں نے کہا کہ ’اب دوبارہ اشتہار دے کر سارا طریقہ کار دوبارہ اپنایا جائے گا اور پھر انٹری ٹیسٹ منعقد ہوں گے۔ تاکہ امیدوار کامیاب ہوں اور کورسز شروع ہوسکیں اس میں تین ماہ تک کا وقت درکار ہوگا۔ سوالیہ پرچے بھی دوبارہ تیار کیے جائیں گے۔ لیکن طریقہ میں نرمی وغیرہ کا کوئی چانس نہیں۔ کیونکہ جامعہ کی پالیسی کے مطابق ہی انٹری ٹیسٹ لینے کے پابند ہیں۔ یہ اعلی تعلیم کا معاملہ ہے اس پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔‘
ان کے مطابق ’پہلے بھی ماہرین سے سوالیہ پرچہ تیار کرایا تھا اور آئندہ بھی اسی معیار کے مطابق ہی سوالیہ پرچے تیار ہوں گے۔‘
دوسری جانب عمر فاروق کے مطابق ’اس بار سوالیہ پرچہ متوازن نہیں تھا، پرچہ نہ صرف آؤٹ آف سلیبس تھا بلکہ اس میں کوئی مجوزہ ترتیب کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ یہ پرچہ مقررہ وقت سے بھی مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ یعنی جہاں دس سوال ہوتے تھے وہاں 14 کر دیے گئے۔ نمبرز بھی حل شدہ سوالوں کے کم کر دیے گئے تھے۔‘
ان کے بقول اس نوعیت کا سوالیہ پرچہ سینئیرز کے مطابق بھی پہلے کبھی نہیں بنایا گیا لیکن اب ڈگری تو کرنی ہے۔ اگر یونیورسٹی دوبارہ اشتہار دے گی تو دوبارہ ٹیسٹ میں شرکت کریں گے۔ امید ہے انتظامیہ دوبارہ اس طرح کا طریقہ نہیں اپنائے گی جس میں 70 فیصد نمبر لینا ہی ناممکن ہو۔