سوشل میڈیا پر چارسدہ یونیورسٹی کے ایک سکیورٹی گارڈ کی ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کی حفاظت کرنے پر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کی دادرسی کرنے کے بجائے ’انہیں نوکری سے برخاست‘ کرنے کا وارننگ نوٹس جاری کر دیا ہے۔
ویڈیو میں سکیورٹی اہلکار کا کہنا تھا کہ ’دس سال خدمت اور یونیورسٹی کی حفاطت کا صلہ انہیں یہ ملا کہ ان پر بدترین تشدد کے باوجود انتظامیہ نے نہ ان کا حال پوچھا اور نہ ہی ان کی کوئی مالی امداد کی۔‘
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چارسدہ پریس کلب میں ایک کرسی پر نڈھال حالت میں سکیورٹی اہلکار سلیم خان گریہ وزاری کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ محمود خان اور وزیر اعظم عمران خان سے مدد کی اپیل کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’انہیں یونیورسٹی کی حفاطت کے دوران مارا پیٹا گیا، لیکن یونیورسٹی نے پھر بھی ان کا حال پوچھنے کی زحمت نہیں کی۔‘
سلیم خان کا کہنا ہے کہ ’میں ایک غریب شخص ہوں۔ شفٹ انچارج کہتے ہیں مجھے یونیورسٹی سے نکالیں گے۔ مجھ پر اتنا ظلم ہوا اور مجھے یونیورسٹی سے نکالنے اور سزا دینے کے آرڈر جاری کیے جا رہے ہیں۔‘
واضح رہے کہ باچا خان یونیورسٹی کے میڈیا ترجمان نے سلیم خان کے موقف کو ’من گھڑت اور جھوٹ قرار دیا ہے‘۔
سلیم خان کے مطابق واقعے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ’27 اگست کو چارسدہ میں زیر تعمیر باچا خان یونیورسٹی کے نیو کیمپس میں چند نامعلوم مسلح افراد نے ان کو اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا جب وہ معمول کے مطابق اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے اور مسلح افراد یونیورسٹی میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
سلیم خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’انہوں نے ایک شخص دیکھا جو یونیورسٹی کی دیوار پر لگی خاردار تار کو کاٹنے میں مصروف تھا۔‘
’جب میں نے قریب پہنچ کر روکنے کی کوشش کی تو پیچھے سے دو آدمیوں نے وار کر کے مجھے مارنا پیٹنا شروع کیا۔ اسی دوران مزید تین لوگ کھیتوں سے نکل آئے اور کہتے جا رہے تھے کہ اس کو کھیتوں میں لے جاکر ذبح کرو۔ تشدد کے بعد وہ لوگ وہاں سے فرار ہوئے۔‘
سلیم خان نے بتایا کہ ’انہوں نے قریبی آبزرویشن پوسٹ کو اطلاع دی اور انہیں پہلے قریبی ہسپتال اور بعد ازاں پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال لے جایا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سکیورٹی ملازم کے مطابق واقعے کے کئی دن تک جب کسی نے ان کی دادرسی نہیں کی تو وہ خود جیسے تیسے باچا خان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے دفتر ان سے ملنے گئے تاکہ ان سے گلہ کر سکیں۔ تاہم بقول سلیم خان کے وائس چانسلر نے ان سے ملنے سے انکار کیا۔
’جب وائس چانسلر نے ملنے سے انکار کیا اور یونیورسٹی نے بھی میرا حال نہیں پوچھا تو میں نے میڈیا کے سامنے بیان دیا۔ جس کی پاداش میں یونیورسٹی نے شوکاز نوٹس جاری کیا اور مجھے نوکری سے برخاست کرنے کا کہا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں پہلے ہی لاغر ہوچکا تھا یہ خبر پڑھ کر میں بے ہوش ہوگیا۔ ہوش میں آنے کے بعد میں نے میڈیا کے سامنے دوسرا بیان ریکارڈ کرایا اور انصاف کی اپیل کی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انہوں نے یونیورسٹی میں 2016 کے دہشت گرد حملے کو ناکام بنانے میں پیش پیش رہے جس پر انہیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کافی سراہا گیا تھا۔‘
سلیم نے الزام لگایا کہ ’واقعے سے چار دن قبل یونیورسٹی کے مرکزی کیمپس نے ان سے بندوق لے کر نئے کیمپس میں ان کا ٹرانسفر کر دیا تھا جہاں وہ اکیلے بغیر اسلحے کے ایک بڑے ایریا کی رکھوالی کر رہے تھے۔‘
ان الزامات کی تصدیق کے لیے جب انڈپینڈنٹ اردو نے باچا خان یونیورسٹی کے میڈیا ترجمان زاہد خان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’چوکیدار سلیم نے کسی کے ایما پر یونیورسٹی کے خلاف سازش کا آلہ بننے کی کوشش کی ہے جس کی مکمل تحقیق کی جائے گی۔‘
ان کے مطابق: ’یونیورسٹی نے ملازم کا تمام چیک اپ لیڈی ریڈنگ ہسپتال سے کروانے کے بعد جب ڈاکٹروں نے انہیں تندرست قرار دیا تو انہیں بحفاظت گھر پہنچا دیا گیا۔ ساتھ انہیں کچھ دن آرام کا کہا گیا۔ اس دوران علاج معالجے کے اخراجات بھی چیف سکیورٹی افسر نے ادا کیے۔‘
زاہد خان نے بتایا کہ ’مذکورہ شخص نے کچھ دن قبل اپنے سپر وائزر سے بدتمیزی کی جس پر انہیں نئے کیمپس پر سزا کے طور پر تعینات کیا گیا اور اس سے اسلحہ بھی لیاگیا تاکہ وہ کسی کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ نتیجتاً اس نے ایسا منصوبہ بنایا کہ ہمدردی حاصل کرکے اس کو دوبارہ یونیورسٹی میں تعینات کیا جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یونیورسٹی کی سطح پر 27 اگست کو پیش آنے والے واقعے کی چھان بین ہورہی ہے اور اصل حقائق کا پتہ لگا کر ملوث عناصر کو بے نقاب کیا جائے گا۔‘
دوسری جانب چارسدہ کے موجودہ ضلعی پولیس افسر زیب اللہ خان نے کہا ہے کہ ’27 اگست کو یونیورسٹی نیو کیمپس میں پیش آنے والے واقعے کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے تاہم کسی کی گرفتاری تاحال عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔‘