اپنی ساکھ بہتر کرنے کی کوشش میں برطانیہ کی سب سے معروف آکسفورڈ یونیورسٹی نے سکول چھوڑنے والوں اور محروم طبقے کے باصلاحیت طلبہ کو کم گریڈز کے ساتھ بھی داخلہ دینے کا اعلان کیا ہے۔
یہ بات امید افزا ہے کہ 2023 تک برطانیہ کے چار انڈر گریجویٹ طلبہ میں سے ایک کا تعلق پسماندہ طبقے سے ہو گا جبکہ آکسفورڈ یونیورسٹی اس دور رس تبدیلی کے فیصلے پر عمل درآمد کا آغاز رسائی کی دو نئی سکیموں ’آپرچونیٹی آکسفورڈ اینڈ فاؤنڈیشن آکسفورڈ‘ سے کرے گی۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے اعلان کردہ اقدامات میں غریب طلبہ کے لیے ایک سال مفت تعلیم جبکہ اضافی سپورٹ کے خواہش مند طلبہ کو اقامتی تعلیم کی سہولت بھی شامل ہے۔
آکسفورڈ نے اس معاملے میں کیمرج یونیورسٹی کی پیروی کی ہے جس نے رواں موسم گرما میں امید سے زیادہ گریڈز حاصل کرنے والے طلبہ کے لیے داخلوں کا اعلان کیا۔
اسی طرح واروک یونیورسٹی نے بھی اسی ماہ ایک کروڑ پاؤنڈز مالیت کے منصوبے کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد کیمپس کے اردگرد 50 کلومیٹر دائرے میں رہنے والے غریب طلبہ کو مفت تعلیم دینا ہے۔
تاہم، یہ اقدامات تاخیر سے اٹھائے گئے ہیں کیونکہ خود کو تبدیلی کی علمبردار کہلانے والی یہ یونیورسٹیوں اب تک اصلاحات اور جدیدیت کے حوالے سے طویل عرصے تک مزاحمت کرتی آئی ہیں۔
آسمان سے باتیں کرتی ٹیوشن فیس، طلبہ کی تعداد کم کرنے اور طالب علموں کی جانب سے نصاب میں سفید فام اور مغربی دانشورانہ روایات سے ہٹ کر نئی تحریریں شامل کرنے کے بڑھتے ہوئے مطالبے کے بعد، بلآخر ان اداروں کو احساس ہوا ہے کہ مناسب اور مکمل ہونے کا مطلب متنوع صلاحیتوں کو اپنی جانب راغب کرنا ہے جس سے ان کی قدیم ساکھ مانند پڑ سکتی تھی۔
ثبوت بتاتے ہیں کہ برطانیہ کے اعلیٰ تعلیم کے ادارے کچھ کے لیے استحقاق تو باقیوں کے لیے امتیازی سلوک برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
2018 کے ایک مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاہ فام طالب علموں کو اپنے سفید فام اور ایشیائی ساتھیوں کے مقابلے میں یونیورسٹیوں سے نکالنے کی شرح ڈیڑھ گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔
اس کے علاوہ آکسفورڈ، واروک اور برسٹل یونیورسٹیوں نے غریب سفید طالب علموں میں سے صرف تین فی صد سے بھی کم کو داخلے دیے جبکہ ڈرہم یونیورسٹی میں یہ شرح چار فیصد تھی۔
مزید براں، 2016 میں یونیورسٹی اینڈ کالج یونین کی طرف سے درس و تدریس کے پیشے سے وابسطہ 600 سیاہ فام افراد پر ہوئے سروے کے مطابق اعلیٰ تعلیمی اداروں میں نسل پرستی کے مضحکہ خیز واقعات عام ہیں۔
اقلیتی طالب علموں کے ساتھ اعلیٰ سطح پر تعصب موجود ہے۔ انٹرویو سے لے کر تعلیم کے اگلے تین برس ان طلبہ کے لیے سرد موسم کی طرح طویل ہو جاتے ہیں۔
گذشتہ سال ’سٹن ٹرسٹ‘ نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا کہ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں نے برطانیہ کے تین ہزار سرکاری سکولوں کے مقابلے میں محض آٹھ نجی سکولوں کے طالب علموں کو زیادہ داخلے دیے۔
محروم طبقے کے لیے رسائی کے یہ نئے منصوبے اشرفیہ اور اعلیٰ طبقے کے لیے مایوس کن خبر ہے، جن کا خیال ہے کہ ملک میں سب سے امیر، سب سے زیادہ طاقتور طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے مواقعے کم ہو جائیں گے۔
اور یہ بات افسوس ناک ہے کہ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ ان نئے منصوبوں کے آغاز کے بعد مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔
سٹو سکول کے سربراہ انتھونی والرسٹینر نے (جہاں ایک ٹرم کی فیس تقریبا نو ہزار پاؤنڈز ہے) انکشاف کیا کہ ان منصوبوں کے بعد بہت سے والدین نجی سکول کے طالب علموں کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کے امکانات کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ’اگر ہم حقیقی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو یونیورسٹیوں کو مزید سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہو گی۔‘
کوٹہ سسٹم کے مقررہ ہدف سےغریب اور اقلیتی طالب علموں کے بڑے حصے کو ہر سال اعلیٰ تعلیمی اداروں میں لانے کی ایک اچھی ابتدا ہو سکتی ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی کا ’ایڈجسٹمنٹ‘ منصوبے میں شمولیت کا فیصلہ صحیح سمت میں ایک قدم ہے لیکن اس سے بڑی تبدیلی کی امید نہیں کی جا سکتی۔
وہ نئی سکیم کے تحت صرف 100 طلبہ کو جگہ دینے کی پیش کش کر رہے ہیں وہ بھی ان کے لیے پہلے سے ہی انٹرویو کے عمل سے گزر چکے ہیں۔
دوسری جانب، اس یونیورسٹی نے کلیئرنگ سکیم میں شرکت سے انکار کر دیا ہے، اس سکیم کو جن دیگر چوٹی کی یونیورسٹیوں نے مسترد کیا ہے ان میں آکسفورڈ یونیورسٹی، رائل کالج لندن، ڈرہم یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف سینٹ انڈریوز شامل ہیں۔
آکسفورڈ، واروک اور کیمبرج جیسے اداروں کے حالیہ اقدامات وقت کی ضرورت ہیں لیکن اگر یہ یونیورسٹیاں چاہتی ہیں کہ وہ ان برادریوں کی نمائندگی کریں جن کے لیے وہ خدمات انجام دیتی ہیں اور ان کی تبدیلی کے علمبردار کے طور پر ساکھ برقرار رہے تو انہیں اس طرح کے مزید اقدامات میں زیادہ شمولیت اختیار کرنے کی ضرورت ہو گی اور یہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ قومی معیار بلند ہو نہ کہ کم۔