قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جب امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان باضابطہ دو طرفہ مذاکرات کا آغاز ہوا تو پہلی ملاقات میں امریکی وفد غیرمعمولی تھا۔ اس میں کوئی خاتون اہلکار شامل نہیں تھی۔
’اس پر طالبان وفد کے ایک سینیئر رہنما نے امریکیوں سے مذاق میں پوچھا کہ ’آپ کے وفد میں کوئی خاتون کیوں شامل نہیں؟‘
اس کا جو جواب ملا اس سے پتہ چلا کہ دراصل امریکی وفد کے سربراہ زلمے خلیل زاد نے طالبان کو پہلی ہی ملاقات میں ناراض کرنے کے خوف سے خواتین کو وفد سے نکال دیا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں یہ کہنا تھا افغانستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی سمیع یوسفزئی کا۔ ’بعد میں خواتین امریکی وفد میں شامل ہوئیں لیکن زلمے خلیل زاد کا طالبان کے ساتھ بعد میں تمام مذاکرات میں رویہ یہی یعنی نرم رہا۔‘
افغانستان کے دارالحکومت کابل پر 15 اگست کو طالبان کے کنٹرول سے چند روز قبل تک سوشل میڈیا پر افغان بڑی تعداد میں ان کو اسلامی تحریک کی تیزی سے ملک بھر میں پیش رفت کا ذمہ دار گردانتے تھے۔ خلیل زاد کے ہیش ٹیگ کے ساتھ افغان انہیں پرتشدد حالات کا ذمہ دار ٹھہراتے تھے۔
اس وقت کا اشرف غنی کے زیر انتظام سرکاری افغان میڈیا بھی کچھ پیچھے نہیں تھا۔ سرکاری افغان ٹی وی اور ریڈیو آر ٹی اے نے ’واشنگٹن ایگزامنر‘ اخبار کا ایک مضمون دری میں ترجمہ کر کے شیئر کیا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ زلمے خلیل زاد سے ان کی ذمہ داری واپس لی جائے۔
مائیکل روبن نے اس مضمون میں لکھا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے تمام تر عرصے کے دوران انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ اسلامی تحریک تبدیل ہو چکی ہے۔ پھر ان وہ دوحہ مذاکرات کے دوران امریکی انتظامیہ کے ٹیکس کے پیسے پر سب سے زیادہ سفر کرنے والے اہلکار بھی قرار پائے۔ وہ ہر روز کبھی کابل تو کبھی اسلام آباد کے علاوہ دنیا بھر کے اہم دارالحکومتوں کے دورے کرتے رہے۔
1951 میں افغانستان کے شمال میں مزار شریف میں پیدا ہونے والے زلمے خلیل زاد کابل میں پلے بڑھے۔ ان کا تعلق پختون قبیلے نورزئی سے بتایا جاتا ہے۔ وہ شادی شدہ ہیں اور ان کے دو بچے ہیں۔
خلیل زاد نے امریکہ کی یونیورسٹی آف شکاگو سے پی ایچ ڈی کی، جس کے بعد وہ مشہور تھنک ٹینک ’رینڈ کارپوریشن‘ اور کولمبیا یونیورسٹی سے منسلک رہے۔
انہوں نے ریگن انتظامیہ میں وزارتِ خارجہ میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے بعد انہوں نے بش جونیئر کے دور میں بطور نائب سیکریٹری خدمات انجام دیں اور 2002 میں افغانستان سے طالبان حکومت کے خاتمے میں کردار ادا کیا۔
انہیں تین برس قبل اس وقت کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے وزارت خارجہ میں شامل کیا تھا جس کا مقصد بقول ان کے افغانستان ’مصالحتی عمل میں مدد‘ تھا۔ افغانستان میں پیدا ہونے والے اس پختون کو اس وقت ایک قدرتی انتخاب مانا گیا تھا۔
’افغانستان طالبان کے حوالے کر گئے‘
افغان طالبان کے ساتھ ایک مشکل امن معاہدے کا سہرا ان کے سر جاتا ہے لیکن اس سمجھوتے کے بعد حالات نے کیا کروٹ لی اس میں وہ بظاہر بےبس دکھائی دیے۔ تاہم سمیع یوسفزئی جیسے بعض افغان ان پر افغانستان طالبان کے حوالے کرنے کے مقصد کے لیے بھیجے جانے کا بھی ان پر الزام لگاتے ہیں۔ سمیع کہتے ہیں کہ ’وہ آئے، انہوں نے بات کی، معاہدہ کیا اور افغانستان طالبان کے حوالے کر دیا۔‘
مبصرین کے خیال میں معاہدے میں طالبان کے لیے دو شرائط تھیں، ایک کثیر الجہتی حکومتی ڈھانچہ اور دوسرا کابل کی ایک مرحلہ وار طے شدہ منصوبے کے تحت منتقلی، اور خلیل زاد ان پر عمل درآمد ان سے نہیں کروا سکے جس کے نتیجے میں طالبان فاتح قرار پائے۔
تاہم یہ معلوم نہیں کہ ان کا صدر جو بائیڈن کے تیز اور افراتفری پر مبنی فوجی انخلا میں کتنا ہاتھ تھا یا انہوں نے اسے روکنے کی کوئی کوشش کی تھی۔ ان کی جانب سے یہ کہنا کہ طالبان تبدیل ہو چکے ہیں نے بھی اسلامی تحریک کے لیے پبلک ریلیشنگ کا کام کیا۔ اس کے ذریعے انہوں نے طالبان کا ایک مثبت پہلو ثابت کرنے کی کوشش کی۔
البتہ کئی مبصرین اس سے متفق نہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ طالبان کا طریقہ کار شاید کچھ تبدیل ہوا ہو لیکن ان کے اہداف کسی صورت ماضی سے مختلف نہیں ہیں۔
زلمے کو کئی تجزیہ نگار فروری 2020 کے امن معاہدے کے بعد قومی مصالحت اور سیاسی مفاہمت پر پہنچنے میں ناکامی کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ طالبان افغانستان پر مکمل کنٹرول کے اپنے ارادے میں مکمل طور پر پہلے دن سے واضح تھے۔ زلمے خلیل زاد کی کوششں امریکہ کا ایک منظم اور پرامن انخلا ہونی چاہیے تھی جو بعد میں ملک میں کوئی خلا یا افراتفری پیچھے نہ چھوڑتے۔ طالبان نے اپنا مقصد حاصل کر لیا البتہ خلیل زاد ایسا نہیں کر سکے۔
طالبان انتہائی مہارت سے افغان حکام کے ساتھ بات چیت میں مصروف تھے لیکن دوسری جانب میدان جنگ بھی انہوں نے گرم رکھا ہوا تھا۔ ایسے میں دوحہ مذاکرات کا فائدہ صرف طالبان کو ہوا۔
نیو امریکہ کے سینیئر فیلو اور سابق فوجی جنہوں نے افغانستان میں ڈیوٹی بھی دی آئونس کوسکیناس کہتے ہیں کہ ’بظاہر ایسا لگتا تھا کہ جیسے زلمے کہیں بھی افغان حکومت کی بارگینگ پوزیشن بہتر بنانے کے لیے کوشش نہیں کر رہے تھے۔‘
زلمے خلیل زاد صورت حال کے بگڑنے کا تمام تر ذمہ دار سابق صدر اشرف غنی کو قرار دیتے ہیں۔ لیکن پوچھنے والے پوچھتے ہیں کہ امریکہ نے اشرف غنی کی سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے اس وقت اقدامات کیوں نہیں کیے کہ وہ کابل میں ہی رکے رہتے؟
طالبان کے کابل پر کنٹرول کے دو ماہ بعد خلیل زاد کا استعفیٰ بہت کچھ ظاہر کرتا ہے۔ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات جن کی انہوں نے قیادت کی ختم ہو چکے ہیں جبکہ امریکہ محض انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فل الحال طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خلیل زاد پر سب سے بڑا الزام دوحہ مذاکرات کے آغاز پر ان کے کہنے پر افغان حکومت کو نظرانداز یا شامل نہ کرنا تھا اور براہ راست طالبان رہنماؤں کے ساتھ معاہدہ کرنا تھا۔ سابق افغان حکومت کے ایک سینیئر رہنما ان ہر ’پورے عمل میں جھوٹ بولنے ... اور طالبان کو ہاتھ سے پکڑ کر کابل لانے‘ کا الزام عائد کرتے ہیں۔
حامد کرزئی کے مقابلے پر
بعض افغان ان پر ذاتی سیاسی ایجنڈا لے کر چلنے اور ملک کا صدر بننے جیسے خواب دیکھنے کا بھی الزام عائد کرتے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق وہ 2009 کے افغان انتخابات میں حصہ لینے اور حامد کرزئی کا مقابلہ کرنے میں سنجیدہ تھے لیکن مقررہ وقت میں کاغذات جمع نہ کروا سکنے کی وجہ سے قاصر رہے۔ کئی افغان کہتے ہیں کہ ایسا شخص کیسے غیرجانبدار رہا ہوگا جس کے اپنے سیاسی عزائم تھے۔
ان کی جگہ ان کے نائب ٹامس ویسٹ لیں گے، جنہوں نے اوباما انتظامیہ کے دوران سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور نیشنل سکیورٹی کونسل کے عملے کے لیے افغانستان میں خدمات سرانجام دیں۔ ٹامس اس سال کے اوائل سے خلیل زاد کے نائب کے طور پر ان کے ساتھ تھے۔ ان کی کئی ملاقاتوں میں موجودگی اور زلمے خلیل زاد کو چیک میں رکھنے کی وجہ سے سینیئر افغان حکام ان کا خیرمقدم کرتے تھے۔
چار صدور کے تحت کام کرنے والے اس امریکی سفیر کو بعض لوگ عراق کی ناکامی کا بھی مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ وہ عراق میں امریکی سفیر رہ چکے ہیں۔ لیکن طالبان کے اقتدار میں آنے کا ملبہ کسی پر تو گرایا جانا تھا، ’برطانوی وائسرائے کے طرح کام کرنے‘ کا لقب پانے والے زلمے خلیل زاد اس کا بالآخر شکار ہوگئے ہیں۔
مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن عام افغان کے ان کے بارے میں تاثرات کچھ اچھے نہیں ہیں۔