بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بدھ کو وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی گئی ہے۔
تحریک عدم اعتماد سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے پیش کی اور مطلوبہ 33 ارکان نے قرارداد کی حمایت کر دی ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جام کمال خان ایک قبیلے کے سردار ہیں، ان کو قائد ایوان بھی اکثریت کے بل بوتے پر منتخب کیا گیا تھا اور آج بھی اکثریت کے بل بوتے پر یہ قرارداد آ گئی ہے اور اس ایوان نے فیصلہ کردیا ہے۔
سردار عبدالرحمٰن نے ایوان کو آگاہ کیا کہ ان کے حمایت یافتہ پانچ ارکان اسمبلی نہیں پہنچ پائے ہیں تاہم ان میں سے ایک رکن کچھ دیر بعد اسمبلی پہنچ گئے تھے لیکن دیگر چار آخری اطلاعات تک اسمبلی نہیں پہنچ پائے تھے۔
بدھ کو قرار داد پیش کیے جانے کے بعد ایوان میں قرارداد پر بحث کی جاتی رہی جس کے بعد وزیراعلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے ووٹنگ 25 اکتوبر 2021 کی صبح 11 بجے کرانے کا اعلان کرکے اسپیکر عبدالقدوس بزنجو نے اجلاس ملتوی کردیا۔
قرارداد کا پس منظر
بلوچستان میں ایک مہینے سے جاری سیاسی رسہ کشی کے باوجود وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے اپنے خلاف پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد سے قبل ناراض ارکان کی تمام تر کوششوں کے باوجود استعفیٰ دینے سے انکار کردیا تھا۔
بلوچستان میں یہ سیاسی بحران اس وقت شروع ہوا جب حزب اختلاف کی جماعتوں نے گذشتہ ماہ 15 ستمبر کو 16 ارکان کے دستخط سے وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تھی جسے گورنر نے اعتراض لگا کر واپس کردیا تھا۔
تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) میں دو دھڑے بن گئے اور ایک نے جام کمال کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے حزب اختلاف کا ساتھ دینے کا عندیہ دیا جس نے حکومتی ارکان کو متحرک ہونے پر مجبور کردیا اور انہوں نے بھی اپنے حمایتیوں سے میل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا۔
اس دوران صوبے کی سیاست میں ہلچل مچی رہی۔ بعد میں اگرچہ خاموشی چھا گئی لیکن اکتوبر کا مہینہ شروع ہونے پر اپوزیشن کی بجائے حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض دھڑے نے منظرعام پر آکر وزیراعلیٰ سے استعفے کا مطالبہ کردیا۔
بلوچستان اسمبلی میں پریس کانفرنس کرنے والے ان ناراض اراکین میں پاکستان تحریک انصاف کے ایک رکن اور بلوچستان عوامی پارٹی کے اسد بلوچ بھی شامل تھے۔
ان ارکان نے جام کمال سے کہا کہ وہ اسمبلی میں اکثریت کھوچکے ہیں، اس لیے ان کے لیے باعزت طریقہ یہی ہے کہ وہ استعفیٰ دے کر علیحدہ ہوجائیں اور وہ صوبے اور عوام کے مفاد میں نئے قائد ایوان اور وزیراعلیٰ کا انتخاب کریں گے۔ اس کام کے لیے وزیراعلیٰ کو ایک ہفتے کا وقت دیا گیا تھا۔
اس دوران سوشل میڈیا پر وزیراعلیٰ جام کمال کے استعفے دینے کی خبریں بھی سامنے آئیں، تاہم حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی اس کی تردید کرتے ہوئے نظر آئے۔
ناراض گروپ کی طرف سے دی گئی ڈیڈ لائن کے اختتام پر چھ اکتوبر کو ایک بار پر اسمبلی میں گہما گہمی نظر آنے لگی اور ان اراکین نے پریس کانفرنس کے دوران جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروانے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
10 اکتوبر کو ناراض اراکین نے جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کروا دی اور اس سے اگلے روز یعنی 11 اکتوبر کو بلوچستان عوامی پارٹی کے جنرل سیکرٹری منظور کاکڑ نے جماعت کی صدارت سے استعفیٰ دینے کی بنیاد پر ظہور بلیدی کو قائم مقام صدر بنادیا اور الیکشن کمیشن کو تحریری طور پر آگاہ کردیا گیا۔
تاہم جام کمال نے واضح کیا کہ وہ جماعت کی صدارت نہیں چھوڑ رہے اور نہیں چاہتے کہ اس سے انتشار پھیلے۔
تاہم اس کے بعد وزیراعلیٰ کے استعفیٰ دینے کی خبروں میں تیزی آگئی، جس کا جواب دینے کے لیے جام کمال نے ٹوئٹر کا سہارا لیا اور استعفے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسا پروپیگنڈا کرنے میں چند افراد ملوث ہیں اور میرے استعفیٰ دینے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔‘
سیاسی سرگرمیوں کی اسلام آباد منتقلی
ابھی یہ معاملات چل ہی رہے تھے کہ وزیراعلیٰ جام کمال اور ناراض گروپ کے اہم رہنما اسلام آباد چلے گئے اور انہوں نے وہاں اپنے لیے لابنگ شروع کردی۔
جام کمال نے اس دوران وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی، جس میں دیگر امور کے علاوہ سیاسی بحران بھی زیر بحث آیا تھا۔
اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کاروں نے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم نے جام کمال کے بحران سے نکلنے کے لیے مدد مانگنے پر معاملے کو ’اندرونی‘ قرار دے کر معذرت کرلی تھی۔
تجزیہ کار بلال ڈار نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ناراض گروپ نے اسلام آباد میں سیاسی قیادت سے کسی فریق کی حمایت نہ کرنے اور اکثریت کا فیصلہ تسلیم کرنے کی کوشش میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔
دوسری جانب ناراض گروپ کی طرف سے جام کمال کے اتحادیوں سمیت آزاد ارکان اسمبلی سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
ناراض گروپ کے وفد نے اپوزیشن رہنماؤں کے ہمراہ سابق وزیراعلیٰ اور رکن اسمبلی نواب اسلم رئیسانی سےملاقات کرکے حمایت طلب کی جس پر انہوں نے مثبت جواب دیا۔
اس وقت بلوچستان اسمبلی میں ناراض اراکین میں سے 14 نے تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کی تعداد 23 ہے۔ 65 کا ایوان ہے اور تحریک عدم اعتماد کے لیے 33 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسمبلی سیشن سے قبل ناراض اور وزیراعلیٰ جام کمال دونوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس اکثریت ہے اور وہ کامیاب ہوں گے۔ باپ پارٹی کے قائم مقام صدر ظہور بلیدی نے گذشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ ایوان میں انہیں کُل 40 راکین کی حمایت حاصل ہے اور ان کی اکثریت واضح ہے۔