کوئٹہ کی 28 سالہ رخشندہ (فرضی نام) نے گریجویشن کے بعد اہل خانہ کی اجازت سے ایک غیر سرکاری تنظیم میں نوکری کرلی، تاہم ان کے لیے یہ تجربہ کچھ زیادہ خوش گوار نہ تھا۔
ایک پڑھے لکھے مڈل کلاس خاندان سے تعلق رکھنے والی رخشندہ غیر شادی شدہ ہیں، اور دفتر میں انہیں جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑ گیا
رخشندہ نے اس حوالے سے اپنی آرگنائزیشن کے سربراہ کو آگاہ کیا تاہم انہوں نے کارروائی کرنے کی بجائے رخشندہ کو ہی نوکری سے نکال دیا۔
رخشندہ نے آواز بلند کرنے کا فیصلہ کیا لیکن گھر اور ساتھ کام کرنے والے دیگر لوگوں نے کہا کیس نہ کریں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ صوبائی محتسب برائے ہراسانی کے دفتر پہنچی جہاں پر ان کی شکایت سنی گئی۔ انہوں نے کام کی جگہ ہر انسداد ہراسانی کے قانون کے تحت محتسب کے دفتر میں کیس جمع کروا دیا۔
محتسب کے دفتر نے تحقیقات کیں اور جرم ثابت ہونے پر ادارے کو ہدایت جاری کی کہ ہراسانی میں ملوث شخص کو نوکری سے فارغ کیا جائے اور تین لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا جائے۔
اس کے علاوہ غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ کو مذکورہ ہراسانی سے متعلق کمیٹی تشکیل نہ دینے اور کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی اور اس کو آویزاں نہ کرنے پر ایک لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا۔
صوبائی محتسب اب تک 45 کیس درج کر چکی ہیں جن میں سے 26 کیس 20-2019 میں تھے۔
اس سال اب تک ہراسانی کے 19 کیس رجسٹر ہوئے ہیں جن میں سے اب تک آٹھ حل ہو چکے ہیں۔ رپورٹ ہونے والے کیسز میں زیادہ تر محکمہ صحت اور محکمہ تعلیم سے رپورٹ ہوئے ہیں۔
وفاقی خواتین محتسب کشمالہ طارق کہتی ہے کہ خاتون کی عزت نفس مجروح کرنا چھوٹی سی بات نہیں ان کا معاشرے میں ایک مقام ہے، مگر بدقسمتی سے خواتین کی بڑی تعداد ہراسانی سے متعلق قانون سے لاعلم ہیں۔
ان کے مطابق اس قانون کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے نہ صرف سیمینار اوت ورکشاپس کا سہارا لیا جا رہا ہے بلکہ میڈیا جو ریاست کا چوتھا ستون ہے اس کے ذریعے آگاہی پھیلانے پر کام جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں صرف 17 فیصد خواتین ہراسانی سے متعلق کیسز رجسٹرڈ کرتی ہیں اور انہوں نے وزیر اعلیٰ بلوچستان سے اپیل کی کہ وہ جلد سے جلد صوبائی کمیشن برائے خواتین کا قیام عمل میں لائیں۔
وفاقی خواتین محتسب کے دفتر میں اب تک 1802کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں جن میں 1667 حل ہو چکے ہیں اور 135 پر کام جاری ہے۔ ایک ماہ میں 60 سے زائد شکایات موصول ہوئی جن میں اکثریت سرکاری اداروں سے تھیں۔
نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن کی چیئرپرسن نیلوفر بختیار کہتی ہے کہ خواتین سے متعلق قانون سازی کرنے والوں کو اپنی سوچ بدلنا ہوگی اور خواتین کو گھر اور گھر سے باہر کام کی جگہ پر محفوظ ماحول فراہم کرنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کمیشن کا قیام 2000 میں عمل میں آیا جس کا مقصد حکومت کی طرف سے عورتوں کی ترقی اور صنفی مساوات کے لیے بنائی جانے والی پالیسیوں اور پروگراموں اور خواتین پر براہ راست اثرانداز ہونے والے قوانین کا جائزہ لینا تھا۔
تاہم بلوچستان میں اب تک کی صوبائی شاخ نہیں بن سکی ہے۔ ۔
صوبائی محتسب بلوچستان صابرہ اسلام ایڈووکیٹ نے بتایا کہ بلوچستان میں ہراسانی کی شکایات میں گذشتہ دو سالوں میں 36 فیصد اضافہ ہوا ہے، جن میں سے زیادہ تر شکایات سرکاری دفاتر سے مل رہی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’اضلاع کی سطح پر ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر آفس میں شکایات سیل بنایا گیا ہے جو ہراسانی سے متعلق کیسز رپورٹ کرتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ خواتین کو دیکھ کر سیٹیاں بجانا، گندی زبان استعمال کرنا، چھونا، دھکے دینا، بری نظروں سے دیکھنا، فحش باتیں اور گانا سنانا ہراسانی کے زمرے میں آتا ہے۔
ان کے مطابق صوبائی محتسب برائے خواتین نہ صرف کوئٹہ میں بلکہ صوبے کے دور دراز علاقوں میں جا کر آگاہی سے متعلق سیمینار منعقد کرتی ہیں اور حالیہ دنوں میں پشین، مستونگ، لسبیلہ اور دیگر علاقوں کا دورہ کیا ہے جہاں مختلف پروگرامز میں خواتین کو کام کی جگہ پر ہراسانی سے متعلق قانون سے آگاہی فراہم کی مزید بھی ایسے پروگرام منعقد کیے جا رہے ہیں۔
قانون کے مطابق ہراسانی کے جرم کے مرتکب کسی بھی فرد/ملازم کو ملازمت سے برطرفی، جبری ریٹائرمنٹ، مقررہ مدت کے لیے اس کی محکمانہ ترقی روکنا، تنخواہ میں اضافہ روکنے کی سزا یا پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔