ضلع صوابی کی خواتین برقعے کی جگہ مخصوص چیل (چادر) استعمال کرتی ہیں، جن پر مخصوص نشان موجود ہوتے ہیں۔ ان چادروں کے پیچھے ایک تاریخ موجود ہے، جس کی کھوج ایک طالبہ نے لگائی۔
صوابی میں خواتین کی یونیورسٹی میں آرٹ اینڈ کلچرل سٹڈی ڈیپارٹمنٹ کی طالبہ مشال خالد نے اپنے تھیسز کے ذریعے اس بات کی تحقیق کی کہ آخر صوابی کی خواتین پورے خیبرپختونخوا سے ہٹ کر مختلف چادر کیوں اوڑھتی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مشال خالد نے بتایا: ’ بچپن سے ہی مجھے یہ محسوس ہوتا تھا اور میں اس چیز کو نوٹس کرتی تھی کہ صوابی کی خواتین مختلف چیل (چادر) کیوں پہنتی ہیں، جو باقی علاقوں سے مختلف اور منفرد ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ان کی خواہش تھی کہ وہ اس پر کوئی کام کریں، لہذا انہوں نے اپنے بی ایس کے تھیسز میں صوابی کی چیل چادر پر تحقیق کی۔
مشال خالد کے مطابق: ’میری تحقیق، ضلع صوابی کے مختلف علاقوں کے سروے اور بزرگوں سے ملنے والی معلومات کے مطابق اس کے پیچھے ایک تاریخی حقیقت ہے، جس کے بارے میں تاریخ دان بھی لکھتے ہیں کہ جب یوسفزئی قبیلے کی شاہ منصور کے مقام پر سکھوں کے ساتھ لڑائی ہوئی تھی توسکھ قوم میدان چھوڑ کر بھاگ گئی۔ جب صوابی کی خواتین میدان جنگ گئیں تو وہاں پر موجود اپنے باپ، بھائیوں اور شوہروں کی لاشوں پر انہوں نے اپنی چادریں ڈالیں، جس پر خون کے دھبے لگ گئے، اسی کی یاد میں یہ خواتین چیل چادر پہنتی ہیں۔‘
ضلع صوابی میں 95 فیصد خواتین چیل چادر لیتی ہیں جبکہ کچھ لوگ جو باہر سے ہجرت کرکے آئے ہیں یا عارضی طور پر یہاں رہائش پذیر ہیں تو ان کی خواتین مختلف چادریں پہنتی ہیں۔
مشال خالد کے مطابق صوابی چیل کی پانچ اقسام ہیں اور مختلف علاقوں میں خواتین مختلف رنگ کی چیل چادر پہنتی ہیں۔ شاہ منصور علاقے کی خواتین سبزرنگ کی چیل پہنتی ہیں، مرغز اور زیدہ اطراف کی خواتین الگ اور ٹوپی اور گدون میں الگ رنگ کی چیل چادریں پہنی جاتی ہیں۔ صوابی کی لڑکیاں زیادہ دلچسپی سفید چیل میں لیتی ہیں اور اسے سکول اور کالج جانے کے دوران بھی پہنتی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ چیل چادر پر تحقیق کرنی والی وہ واحد فرد ہیں۔ ’یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے اور اسی چیز کو میں آگے لے کر جانا چاہ رہی ہوں۔ میں اسے بین الاقوامی سطح پر لے جاناچاہتی ہوں تاکہ لوگوں کو اس کے بارے میں آگاہی ہو، کیونکہ صوابی واحد جگہ ہے جہاں خواتین ایک مخصوص قسم کی چیل(چادر) پہنتی ہیں اور پاکستان میں کسی بھی علاقے میں اس طرح کی چادر کا رواج نہیں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بقول مشال خالد: ’ایسی چادریں بھی موجود ہیں جو صدیوں پرانی ہیں کیونکہ صوابی میں چیل کو بہت عزت کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ اس کو نہ ضائع کیا جاتا ہے، نہ جلایا جاتا ہے اور نہ پھینکا جاتا ہےاور اگر خراب ہوجائے تو اس سے کوئی اور چیز بنادی جاتی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ اس کی قیمت کافی کم ہے اور ہر کوئی اسے خرید سکتا ہے۔ ایک چیل چادر سات سو سے پانچ سوتک مل جاتی ہے۔
ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والے اسلامیہ کالج پشاورکے پشتو ڈیپارٹمنٹ کے استاد اور ادیب نورالامین یوسفزئی نے انڈیپندنٹ اردو کو صوابی چیل کے حوالے سے بتایا کہ ’یہ ضلع صوابی کے کلچر کا حصہ ہے اور اس کی تاریخ روایات سے ہمیں پتہ چلا ہے اور مجھے خود میری دادی نے 40 سال پہلے بتایاتھا کہ سکھ جب شاہ منصورکے علاقے پر حملہ آور ہوئےاورلوگوں کے گھر لوٹ رہے تھے تو اس وقت شاہ منصور اور دیگرعلاقوں سے لوگ ان کے خلاف نکل آئے، جس کے بعد سکھ بھاگ نکلے لیکن حملے کے دوران جو لوگ مارے گئے تھے یا زخمی ہوئے تھی تو ان کی بیویوں، ماؤں اور بہنوں نے اپنی چادریں ان کے اوپر ڈال دیں، جس پر خون کے سرخ نشان ان پر لگ گئے۔‘
نورالامین یوسفزئی نے مزید بتایا کہ ’یہ خواتین ان چادروں کو عقیدت سے اوڑھتی تھیں۔ پھر بعد میں خواتین دیگر سفیدچادروں پر ہاتھوں سے کشیدہ کاری کرکے سرخ پھول بنا کر اس چادر سے تشبیہ دیتی تھیں۔۔اب اس میں جدت آگئی ہے اور خواتین اور لڑکیاں مختلف رنگ کی چیل پہنتی ہیں اور لوگ اسے پسندکرتے ہیں کیونکہ یہ ضلع صوابی کے کلچر کا حصہ ہے۔‘