کراچی کی مصروف ترین شاہراہ فیصل پر واقع 15 منزلہ نسلہ ٹاور کے یوٹیلٹی کنکشن ختم ہونے کے بعد اس کے بیشتر مکین یہاں سے جا چکے ہیں جبکہ چند ایک اپنے سامان کی منتقلی میں مصروف ہیں۔
اس عمارت کو سرکاری انتظامیہ نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر عمارت کو فوری طور پر کنٹرولڈ ایمیونیشن بلاسٹ سے مسمار کرنے کے لیے کمشنر کراچی اقبال میمن نے مختلف اخباروں میں اشتہار دیے، جس کے مطابق پروپوزل جمع کروانے کی آخری تاریخ 29 اکتوبر تھی۔
اشتہار میں کہا گیا کہ اس کام کے لیے ان کمپنیوں کو ترجیح دی جائے گی جو کنٹرولڈ ایمیونیشن بلاسٹ یا ڈیٹونیشن میں مہارت رکھتی ہیں۔
اس کے علاوہ ان کمپنیوں میں بھی دلچسپی ظاہر کی جائے گی جو باحفاظت سائنسی طریقوں سے جلد از جلد اس عمارت کو گرا سکیں۔
البتہ ابھی تک نسلہ ٹاور کو بارود کے ذریعے مسمار کرنے کے فیصلے پر تمام متعلقہ ادارے ایک پیج پر نہیں آسکے۔
نسلہ ٹاور جس مقام پر واقع ہے وہاں اطراف کی عمارتوں، زیر زمین پانی کی لائنوں اور عمارت کے ساتھ گزرنے والے نرسری روڈ کے اہم پل کو دھماکے سے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔
منگل کو کمشنر کراچی آفس میں نسلہ ٹاور کے حوالے سے ملاقات میں فوج کے وکٹری کور، فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (اف ڈبلیو او)، نیشنل لاجسٹکس کمپنی (این ایل سی)، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی)، سندھ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ، کراچی ضلع شرقی ایڈمنسٹریشن کے افسران اور این ای ڈی یونیورسٹی کے ماہرین نے شرکت کی تھی۔
اسسٹنٹ کمشنر فروزآباد آسمہ بتول نے اس ملاقات کے حوالے سے بتایا کہ ’کمشنر کراچی آفس کے اشتہار پر اب تک کئی کمپنیوں نے رابطہ کیا ہے۔۔۔۔ جیسے ہی کوئی کمپنی فائنل ہوگی نسلہ ٹاور کو گرانے کا عمل شروع کردیا جائے گا۔
’جو کمپنی فائنل ہوگی اس کے بتائے گئے طریقے پر عمارت کو گرایا جائے گا۔‘
خیال رہے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اتنی اونچی عمارت کو بارود سے گرایا جائے گا۔
کنٹرولڈ بلاسٹ میں کتنے مراحل ہوتے ہیں؟
دنیا بھر میں کسی بھی اونچی عمارت کو گرانے سے قبل اس کے اطراف کا سروے کیا جاتا ہے تاکہ طے کیا جا سکے کہ عمارت کو باحفاظت کس جانب گرانا ہے۔
عمارت کس جانب گرے گی اس کا فیصلہ ہونے کے بعد عمارت کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا ہے کہ اس میں کہاں کہاں بارودی مواد نصب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مطلوبہ نتیجہ حاصل کیا جا سکے۔
پھرعمارت میں سے تمام نقصان دہ مواد جیسا کہ آگ پکڑنے والی اشیا، گلاس اور فرنیچر وغیرہ نکالا جاتا ہے۔
اس کے بعد وہ دیواریں ہٹائی جاتی ہیں جن پر لوڈ نہیں ہوتا۔
یہ سب کرنے کے بعد عمارت کے پلرز میں سوراخ کر کے بارودی مواد بھرا جاتا ہے۔
اب مرحلہ آتا ہے ایک بٹن دبا کر عمارت کو زمین بوس کرنے کا۔
اسسٹنٹ کمشنر فروزآباد آسمہ بتول نے مزید بتایا کہ پاکستان میں کئی کمپنیوں کے پاس پلوں، ورجن لینڈز اور پہاڑوں پر بارود سے دھماکے کرنے کی صلاحیت ہے، اس لیے وہ اس کام کے لیے کسی بیرون ملک کمپنی سے رابطہ نہیں کریں گے۔
’مگر مسئلہ یہ ہے کہ کسی اونچی عمارت اور کسی روڈ یا پل کو گرانے میں کافی فرق ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا اس لیےعمارتوں کا بلڈنگ کوڈ کے مطابق تعمیر ہونا ضروری ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ عمارت میں کتنے ستون اور کتنا سریا ہے۔
’اس کے حساب سے طے کیا جاتا ہے کہ بلاسٹ کی صورت میں کتنے ملی سیکنڈز میں کتنے دھماکے ہوں گے۔ مگر یہ اہم معلومات نہ ہونے کے باعث نسلہ ٹاور کو بارود سے گرانا اطراف کی سڑکوں یا آبادیوں کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے ہمیں نسلہ ٹاور کا کمپلیشن سرٹیفیکیٹ دیا ہے اور نہ ہی اس کا بلڈنگ کوڈ جس کے بغیر اس کو دھماکے سے مسمار کرنے کا پلان بنانا انتہائی مشکل ہوگا۔‘
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے انجینیئر اور خطرناک عمارتوں کی کمیٹی کے رکن فرحان قیصر کے مطابق یہ عین ممکن ہے کہ آخر میں تمام صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹاور کو بارود سے نہیں بلکہ دستی مزدوری اور ایس بی سی اے کے پاس موجود مشینوں کی مدد سے مسمار کیا جائے۔ اس عمل میں تین سے چار ہفتوں کا وقت درکار ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ اونچی عمارتوں کی بلاسٹنگ یا ڈائینامائٹ پروفنگ دنیا کے صرف 11 ملکوں میں ہوتی ہے۔
’سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی یا پاکستان کے کسی اور سرکاری ادارے کے پاس بارود سے اونچی عمارتیں گرانے کی ٹیکنالوجی موجود نہیں۔ کمشنر کراچی نے مختلف نجی کمپنیوں سے پروپوزل مانگے ہیں مگر ممکن ہے کہ آخر میں یہ کام دستی مزدوری اور موجودہ مشینری کی مدد سے کیا جائے کیوں کہ یہی سب سے محفوظ طریقہ کار ہے۔‘
انجینیئر فرحان قیصر کا مزید کہنا تھا کہ بارود سے صرف وہ عمارتیں گرائی جاتی ہیں جن کے اطراف میں کوئی عمارت نہ ہو۔ نسلہ ٹاور کو کنٹرولڈ ایمیونیشن بلاسٹ سے گرانے کا آپشن رکھا تو گیا ہے مگر اسے عملی جامع پہنانے میں کافی ریسرچ کرنے اور احتیاطی تدابیر اپنانے کی ضرورت ہے۔‘
منگل کو کمشنر کراچی آفس میں ہونے والی ملاقات میں فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) بھی موجود تھی۔
ایف ڈبلیو او سے منسلک کرنل (ر) احسان اللہ کے مطابق ایف ڈبلیو او کے پاس کنٹرولڈ ایمیونیشن بلاسٹ کی سہولت اور پاکستان آرمی کے ڈیمولیشن ماہرین موجود ہیں، البتہ نسلہ ٹاور کو گرانا ایک چیلنج ہوگا۔
’اگر کسی عمارت کو دھماکے کے ذریعے گرایا جاتا ہے تو اس کے اطراف کی عمارتوں کی حفاظت بہت ضروری ہوتی ہے۔ اس عمل میں ایک ایسی ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے جس سے یہ یقینی بنایا جاتا ہے کہ گرنے والی عمارت کا دھچکہ اطراف کی عمارتوں میں منتقل نہ ہو۔
’اس کے علاوہ عمارت کے بنیادی ڈھانچے میں حکمت عملی کے تحت دھماکہ خیز چارجز لگائے جاتے ہیں جس کی مدد سے وہ عمارت ایک ماس کی طرح نیچے آتی ہے اور اندر کی طرف گرتی ہے جس سے عمارت کے اطراف میں کم سے کم ملبہ گرتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ یہاں سب سے اہم کردار بلنڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا ہے جو کراچی میں تقریباً غیر موثر لگتی ہے۔
’کراچی جیسے شہر میں ضروری ہے کہ اونچی عمارتوں کے چاروں طرف اتنی خالی جگہ ہونی چاہیے کہ آگ لگنے کی صورت میں ایک سنارکل گاڑی آرام سے اس عمارت کا پورا چکر لگا سکے۔ مگر کراچی میں اونچی عمارتیں کافی قریب قریب بنائی جاتی ہیں۔‘
تاہم ان کے مطابق ’ایف ڈبلیو او کے پاس ٹیکنالوجی ہے جس سے اونچی عمارتوں کو بارود سے ترتیب وار گرایا جاسکتا ہے لیکن اگر عمارت کے اطراف میں جگہ بہت کم ہے تو یہ کام ممکن نہیں ہوگا۔‘
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے ایک تحریری حکم میں نسلہ ٹاور کو گرانے کا حکم دے رکھا ہے۔ حکم میں لکھا ہے کہ تمام متعلقہ اداروں کی دستاویزات کا جائزہ لینے اور ریکارڈ دیکھ کر ثابت ہو گیا کہ نسلہ ٹاور قبضے کی زمین پر بنا ہوا ہے۔
عمارت کے مکینوں کو 27 اکتوبر تک عمارت خالی کرنے کی مہلت دی گئی تھی۔
سپریم کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں بھارت سمیت دنیا بھر میں استعمال ہونے والے جدید ڈیٹونیشن کے طریقوں کو استعمال کرنے کی ہدایت کی ہے۔ البتہ یہ بھی کہا ہے کہ نسلہ ٹاور کو گرانے کے عمل میں کسی بھی قسم کا نقصان نہ ہو۔
پڑوسی ملک بھارت میں کئی مقامی کمپنیاں کنٹرولڈ ایمیونیشن بلاسٹ کی تکنیک استعمال کر رہی ہیں۔
گذشتہ سال کیرالہ میں چار غیر قانونی سکائے سکریپرز کو بھارتی سپریم کورٹ کے حکم پر گرایا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان عمارتوں کو گرانے میں تین مہینے کا وقت لگا جس میں 750 کلوگرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔
ان چاروں عمارتوں میں سب سے اونچی عمارت 70 میٹر بلند تھی جو کہ بھارت کی تاریخ میں اونچی ترین کنٹرولڈ ایمیونیشن بلاسٹ سے گرائی گئی عمارت تھی۔
ان عمارتوں کو گرانے سے قبل مستقل دو دنوں تک اطراف کے علاقے میں دفعہ 144 نافذ کی گئی جبکہ عمارتوں کے 200 میٹر فاصلے تک سڑکوں کو خالی کروا لیا گیا تھا۔
اس ڈیمولیشن کے کام میں تقریباً چار سے پانچ کروڑ روپے کا خرچہ آیا تھا۔
اس کے علاوہ 2016 میں بھارتی شہر چنئی میں ایک 11 منزلہ عمارت کو اور 2019 میں مدھیہ پردیش میں بھی ایک ہوٹل کو بارود سے گرایا گیا تھا۔