پشاور کی مسجد قاسم علی خان کے نگران مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے ملک میں دود دو عیدیں منائے جانے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ حق بات کے لیے اختلاف کی پرواہ نہیں کرنا چاہیے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مفتی پوپلزئی نے کہا کہ اصولا سارے ملک میں ایک عید اور ایک ہی دن پہلا روزہ ہونا چاہیے۔
سوال : آپ کا نام کیا ہے اور کہاں سے پڑھے ہیں؟
جواب : مفتی محمد شہاب الدین پوپلزئی۔ مفتی یا قاضی، یہ القابات موروثی نہیں ہیں۔ ان کے لیے تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے۔ میں نے پشاور کے جامعہ دارالعلوم سرحد سے تعلیم حاصل کی ہے۔ دارالافتا سے پانچ سال پڑھا ہے۔
سوال: قاسم علی خان میں رویت کی قانونی اورشرعی حیثیت اورضرورت کیا ہے؟
جواب: دیکھیں! پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ کب سے ہورہا ہے؟ مسجد مہابت خان، مسجد وزیرخان اور مسجد قاسم علی خان مغلیہ دور میں بنیں۔ قاسم علی خان کی امتیازی حیثیت یہ ہے کہ وہ یہاں کے گورنر رہ چکے ہیں۔ وہ صحافی بھی تھے۔
ہمارے بزرگ یہاں پر1825 میں تشریف لائے۔ ہمارے جد امجد مفتی عبدالرحیم اول صاحب کو یہاں پر قاضی القضا مقررکیا گیا۔ وہ مسجد قاسم علی خان میں بیٹھ کرفیصلے کیا کرتے تھے۔ ابتدا ہی سے یہاں پررمضان المبارک اور عید کے لئے علما کے اجلاس ہوا کرتے تھے اورشہادتیں یہیں پروصول کی جاتی تھیں اورانہیں شریعت کے ضابطوں کے مطابق قبول یا رد کیا جاتا تھا۔ تقریباً 92، 93 سال ہوگئے ہیں۔
یہ ایسا نہیں جیسا لوگوں کے ذہنوں میں ہے کہ ہم نے کوئی کمیٹی بنا رکھی ہے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے خلاف، یہ سلسلہ 1825 سے چل رہا ہے۔ لوگوں کا ہم پر اعتماد ہے۔ ہمارے ہاں زونل رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس اوقاف ہال میں ہوتا ہے لیکن آپ کسی سے بھی پوچھ لیں وہاں کوئی نہیں جاتا۔ جس نے چاند دیکھا ہوتا ہے یا چاند کے حوالے سے کوئی معلومات چاہتا ہے تو وہ مسجد قاسم علی خان میں آتا ہے۔
ایک تو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہییے کہ مخالفت برائے مخالفت کے لئے کوئی کمیٹی میں نے تشکیل نہیں دی۔ اس کو ہم کمیٹی کہہ تو رہے ہیں لیکن اس کا کوئی ڈھانچہ نہیں ہے۔ ہر دور میں ہوتا آیا ہے کہ یہاں چاند دیکھنے کی رات ہوتی ہے۔ مقامی علما یہاں اکٹھے ہوجاتے ہیں اوران میں جو بھی تقویٰ یا علم کے لحاظ سے افضل ہو یا جنہیں وہ چاہیں سب ان کے گرد بیٹھ جاتے ہیں حلقہ بنالیتے ہیں۔
یہاں کوئی صدر نہیں کوئی جنرل سیکرٹری نہیں ہے۔ اسی طرح یہ سلسلہ چلتا آرہا ہے۔ اوراپنے وقت کے بڑے بڑے علما اس عمل میں شرکت بھی کرتے رہے ہیں فیصلے بھی کرتے رہے ہیں۔
مثال کے طور پر ہمارے والد صاحب نے 1983 میں وفات پائی۔ اس کے بعد میری یہاں تعیناتی ہوئی ہے اس وقت صوبے کے مقتدر علما میں مولانا محمد ایوب بنوری تھے۔ وہ ہمارے شیخ ہیں۔ مفتی عبداللطیف تھے جن کا فتوی میرے والد صاحب کے بعد پورے صوبے میں مستند جانا جاتا تھا۔
مفتی حبیب الرحمن صاحب اور شیخ الحدیث مولانا فضل الرحمن صاحب تھے۔ اس سطح کے بڑے بڑے علما شریک ہوتے رہے ہیں اوریہ سارا عمل انہی کی زیرنگرانی چلتا رہا ہے۔
سوال: تو کیا ہم سمجھیں یہ خالصتاً دیوبند مکتب فکر کے لوگ ہیں یا کوئی اوربھی آتا ہے؟
جواب: نہیں یہ ایسا نہیں ہے کہ یہ دیوبند مکتب فکر ہے۔ ہماری طرف سے کسی کے آنے پرکوئی پابندی نہیں ہے۔ موجودہ وفاقی وزیرمذہبی امورنورالحق قادری صاحب، میری یادداشت کے مطابق یہ بھی یہاں آتے رہے ہیں۔ ان کے خاندان اوران کی خانقاہ کی بھی یہاں نمائندگی ہوتی رہی ہے۔ یہ ایک مسلک کی جگہ نہیں ہے۔ اب یہی دیکھ لیں اس بار بھی بریلوی مکتبہ فکر کے 12 لوگوں نے چاند دیکھا اورہمارے ہاں آکرگواہی بھی دی۔
سوال: کیا طریقہ کار ہے؟ کوئی بھی آ کر کہہ سکتا ہے کہ میں نے چاند دیکھ لیا؟
جواب: نہیں ایسا طریقہ کار نہیں ہے۔ اس کا طریقہ کار وہی ہے جو شریعت کا ضابطہ ہے گواہ کے لئے، کہ وہ عاقل، بالغ اور مسلمان ہو اورعادل جانا جاتا ہو۔ اس کے علاوہ ہم نے ایک اور چیز کا بھی اضافہ کیا ہے کہ جو شہادت دے اس کے تزکیے کا بھی معلوم ہو۔
ہم اس معاملے کو بہتر بنانے کے لئے اپنے علما کے ذریعے مساجد میں چاند دیکھنے کے حوالے سے پیشگی ترغیب دیتے ہیں۔ اس کے بعد جو لوگ چاند دیکھتے ہیں وہ اپنے مقامی عالم کو بتاتے ہیں وہ پھر ہم سے رابطہ کرتے ہیں پھر ہم ان عالم یا پیش امام سے کہتے ہیں کہ وہ چاند دیکھنے والے کی شہادت کے لئے ان کے ساتھ آئیں۔ کوئی عالم یا پیش امام غلط آدمی کے ساتھ تو کبھی نہیں جاتا نا!
ہمیں اس نظام کے ذریعے گواہی دینے والے فرد کے بارے میں ہمیں پہلے سے علم ہو جاتا ہے کہ وہ کیسا ہے ؟ پھر جب اسے یہاں لایا جاتا ہے تو یہاں موجود علما اسے جانچتے ہیں اور گواہی قبول یا رد کرتے ہیں۔
اس نظام میں ایک بات ہے کہ کسی کے منہ پر نہیں کہا جاتا کہ ان کی گواہی قبول نہیں کی جارہی بلکہ متعلقہ رجسٹر میں نشان لگادیا جاتا ہے کہ گواہی کو قبول نہیں کیا گیا۔ شہادت دینے والے کے نام اور ولدیت کے سامنے ایک نشان لگا دیا جاتا ہے۔ اس طرح مجلس میں ان کی سبکی نہیں ہوتی۔ چاند دیکھنے کا حکم پیغمبر پاک نے سب کو دیا ہے۔ یہ حکم کسی ایک کے لئے نہیں ہے۔
سوال: رمضان اور عید کے چاند ہی کیوں دیکھے جاتے ہیں باقی چاند کیوں نہیں دیکھے جاتے؟
جواب: ہمارے ہاں سال کے 12 مہینے چاند دیکھنے کے لئے اجلاس ہوتا ہے۔ 13 اضلاع میں اس طرح کا نظام ہے ہمارا۔ علما بیٹھتے ہیں اور اگر ان کے پاس کوئی چاند کی شہادت دینے آئے تو پھر وہ ہم سے مشورہ کرتے ہیں لیکن ہم، جن مہینوں کے ساتھ فرائض اورواجبات کی ادائیگی کا حکم نہیں ہوتا ان کے چاند دیکھنے کی تشہیر نہیں کرتے۔
سوال: آپ کی رویت ہلال پر کتنا خرچہ آتا ہے اورکیا یہ آپ کا روزگار ہے یا کوئی اور روزگار بھی ہے آپ کا ؟
نہیں، ہماری کمیٹی پر کوئی خرچہ نہیں آتا اورنہ ہی یہ ہمارا ذریعہ آمدن ہے۔ یہ خالصتاً اللہ کے لیے ہے۔
سوال: تو فائدہ کیا ہے؟
جواب: فائدہ تو اس کا یہی ہے کہ شریعت کا جو طریقہ ہے وہ لوگوں میں جاری و ساری رہے۔ ہم نے ہر دور میں انتظامیہ، صوبائی مشینری اوروفاق سب سے بات کی ہے کہ رویت ہلال کا کام کیسے ہونا چاہییے اور کیسے اس پر سب کا اتفاق ہوسکتا ہے؟
یہ ضروری نہیں ہے کہ سب جگہ ایک دن ہی روزہ اور عید ہوں۔ لیکن اگر اتفاق ہوجائے تو یہ ممکن بھی ہے۔ اختلاف ہم بھی پسند نہیں کرتے لیکن غلط چیز کی حمایت بھی نہیں کرسکتے۔
سوال: لیکن جو کام آپ کررہے ہیں کیا وہ معاشرے میں اختلاف کا باعث نہیں بن رہا؟
جواب: جس بات کو آپ حق اورٹھیک سمجھتے ہیں اس کو بیان کرنا آپ پر لازم ہے۔ ظاہری بات ہے اختلاف تو ہو گا لیکن اس اختلاف سے کوئی بدامنی نہیں ہوتی۔ ہم کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ ہم حکومت یا مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے خلاف ایسی زبان استعمال نہیں کرتے جس سے ماحول خراب ہو۔ ہمارے علما کے شہری اورشرعی حقوق پامال کئے گئے۔ انہیں تنگ کیا گیا ہم نے اس کے خلاف کبھی احتجاج بھی نہیں کیا۔
سوال: سائنس کو کیوں نہیں مانتے؟
جواب: سائنس کو کیوں نہیں مانتے۔ مانتے ہیں۔
سوال: حال ہی میں سوشل میڈیا پر آپ کا بیان پر آیا ہےکہ فواد چودھری کچھ بھی کرلیں ہم نہیں مانیں گے۔ اگر وہ مفتی منیب الرحمان صاحب اور آپ کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کیا حرج ہے؟
جواب: آج کل جس کے ہاتھ بھی کچھ آتا ہے وہ ہوا کا رخ دیکھ کر اسے چلاتا ہے۔ میں نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا کہ فواد چودھری صاحب یا مفتی منیب الرحمان صاحب کچھ بھی کرلیں ہم نہیں مانیں گے۔
آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے باتیں پھیلائی جاتی ہیں۔ آپ پورا ریکارڈ دیکھ لیں ہم نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا اور نہ ہی ایسی ناشائستہ زبان استعمال کی جس کی شریعت اجازت نہ دیتی ہو۔ ہم جب اس معاملے پر پیغمبر صلی الله علیه وسلم کے طریقے کی طرف دعوت دے رہے ہوں تو ہمارا اخلاق بھی پھر ان جیسا ہونا چاہییے۔
سوال: باقی اسلامی ممالک کے مقابلے میں ہمارے ہاں روزہ اورعید پر لوگ تقسیم ہوتے ہیں اس کی کیا شرعی حیثیت ہے؟
جواب: ہمارا ملک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ ریاست مدینہ اورپاکستان، اسلام کے نام پر بنے۔ ہمارے آئین میں ہے کہ ملک میں اسلام سے متصادم کوئی قانون نہیں بنے گا لیکن یہاں جو بھی حکمران آیا چاہے وہ منتخب ہوکرآیا ہو یا آمر ہو۔ وہ چور دروازے سے آئے یا ڈیپوٹیشن پر، کسی کی ترجیحات میں دین ومذہب شامل نہیں رہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل جیسا آئینی ادارہ 70 ہزار سے زیادہ سفارشات مرتب کر چکا ہے لیکن کسی حکومت نے ان پر قانون سازی نہیں کی۔ اسی لیے تو یہ اختلاف ہے۔ یہ اختلاف بہت آسانی سے ختم ہوسکتا ہے۔ ہم اس معاملے پر مکمل تعاون کے لئے تیار ہیں۔ اسلام کا حکم ہے کہ جب ایسا اختلاف آئے تو اسے اللہ اور رسول صلی الله علیه وسلم کی طرف لوٹا دو۔
2011۔12 میں جب سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور نے ہمیں بلایا تو ہم گئے۔ وہاں علم فلکیات، وزارت مذہبی امور کے لوگ اورچیئرمین سینٹ بھی تھے۔ وہاں بھی میں نے تجویز دی کہ اب تک جو اجلاس ہوتے رہے ہیں لیکن وہاں نشستند، گفتند، برخاستند کی کیفیت رہی ہے۔
میں نے کہا کہ ایک سب کمیٹی بنالیں جو سارا سال جدوجہد کرے۔ انہوں نے ڈاکٹرخالد محمود سومرو کو اس سب کمیٹی کا چیئرمین بھی بنایا۔ ہمیں اس کمیٹی میں بھی بلایا گیا لیکن چیئرمین صاحب نے کمیٹی کے کسی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
میں نے پھر ان کو تجویز دی کہ وہ اس سب کمیٹی کا اجلاس پشاور میں کریں اورجو علما یہاں پر اس معاملے پراتفاق کے لئے سفارشات دیں ان کو سب کے سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جائے۔
دوسری بات یہ تھی کہ یہاں پر علما جوسفارشات دیں ملک بھر کے بڑے اداروں کے علما کے پاس بھیجی جائیں تاکہ وہاں سے جو جوابات آئیں ان پر خیبرپختونخوا کے علما کے ساتھ بیٹھ کر باضابطہ دستور کے طور پربنایا جائے۔
اس دستور کو پھر ایک بار جائزے کے لئے ملک بھر کے تمام بڑے دینی اداروں میں بھیجا جائے تاکہ اس میں نقائص کا جائزہ لیا جاسکے اور جب وہاں سے یہ واپس آجائے تو پھر اسے حتمی منشور بنالیا جائے کہ آئندہ اسی کے تحت فیصلے کرنے ہیں۔
لیکن اس کے بعد اس سب کمیٹی کا اجلاس کبھی نہ ہوسکا اورانتظارکرتے کرتے خود سینٹ کی مدت ہی ختم ہوگئی۔ اب جب بھی اتفاق واتحاد کی بات کی جاتی ہے تو ہم یہی کہتے ہیں کہ سینٹ کی سطح پر جو کام ہوا تھا اسے کو وہیں سے شروع کیا جائے تاکہ وقت اوروسائل بچ سکیں۔
رویت ہلال کے مسئلے کا کوئی فوری حل نہیں ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ کسی مسئلے کو آپ حل کرنا چاہیں تو سب سے پہلے اس کے لئے سنجیدگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ ایسے افراد کو سپرد کرنے کی ضرورت ہے جو اسے حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔
ان پر کوئی قدغن بھی نہیں ہونی چاہییے کہ آپ نے یہ کرنا ہے اوریہ نہیں کرنا۔ اگر اس معاملے کو بھی اس انداز میں طے کیا جائے کہ ایک متفقہ منشور سامنے آجائے تو اس حوالے سے کسی فیصلے پرکوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ یہ قرآن وسنت کے خلاف ہے۔
ڈاکٹر خالد محمود سومرو نے جو کام کیا تھا اس کو سامنے لانا چاہییے۔ انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی غیرآئینی ہے۔ اس کا چیئرمین تین سال کے لئے مقرر ہوگا لیکن خلاف ورزی ہوئی ہے۔ پچھلی بار جب سردار یوسف وفاقی وزیرمذہبی امور کے طورپر آئے تھے تو میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ کب تک مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی لاش کو کندھوں پراٹھائے پھرتے رہیں گے؟
مرکزی رویت ہلال کمیٹی چاند دیکھنے کے لئے جو طریقے استعمال کرتی ہے وہ غیرشرعی ہیں۔ سب سے پہلے چاند کو ننگی آنکھ سے دیکھنا ضروری ہوتا ہے لیکن وہ دوربین سے دیکھتے ہیں۔