ایک طرف معیشت سدھارنے کے لیے آئی ایم ایف کی تلوار تو دوسری جانب غریب عوام پر مسلسل مہنگائی کے وار۔
پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے کے خواہش مند وزیراعظم عمران خان نے مہنگائی سے ستائے عوام کے لیے بقول ان کے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ریلیف پیکج کا اعلان تو کیا لیکن ساتھ ہی آنے والے دنوں میں مزید مہنگائی کی نوید بھی سنا دی۔
یقیناً وزیراعظم جو کہتے ہیں وہ کر دکھاتے ہیں، پیٹرول کی قیمت میں مزید آٹھ روپے فی لیٹر کا اضافہ کر دیا گیا حالانکہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت میں قدرے کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
وزیراعظم نے دو کروڑ غریب خاندانوں کے لیے آئندہ چھ ماہ تک 120 ارب روپے کے سبسڈی پیکج کا اعلان کیا۔ اس ریلیف پیکج میں کتنا ریلیف ہو گا، پیکج کا حساب کیسے لگایا گیا اور عمل درآمد کا طریقہ کار کیا ہو گا؟ یہ جاننے کے لیے میری جب حکومتی ذرائع سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے اب سے چند ہفتے قبل بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر اپنے وزرا اور مشیروں سے ملاقات کی، جس کا مقصد عوام کو براہ راست سبسڈی دینا تھا۔
بڑے سیٹھوں کو سبسڈی اور سہولیات دے دے کر پی ٹی آئی حکومت کو شاید یہ سمجھ آ گئی ہے کہ ان کو جو کچھ بھی دیا جائے عوام کو ملنا کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا تخمینہ لگایا گیا کہ چار پانچ افراد پر مشتمل ایک خاندان ایک ماہ میں 40 کلو آٹا (2200 روپے)، چار کلو گھی (900 روپے)، چار کلو دالیں (800 روپے) خریدے تو ماہانہ بل تقریباً 3900 روپے کا بنے گا۔ اور اس بل پر اسی خاندان کو اگر 1000 روپے کی سبسڈی یا ڈسکاؤنٹ دے دیا جائے تو انہیں یہی اشیا تین ہزار روپے سے کم میں ملیں گی، جو یقیناً بڑا ریلیف ہو گا۔
حکومتی ترجمان خود آف دا ریکارڈ یہ بات تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ ریلیف بہت کم ہے لیکن کم ہونے کا جواز کچھ یوں دیا جا رہا ہے کہ پاکستان کی 60 فیصد آبادی یا تو غربت کی سطح پر یا اس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔ یہ تقریباً 13 کروڑ لوگ بنتے ہیں۔ سب کو 1000 روپے سے زائد کا ریلیف دینا حکومت کے بس کی بات نہیں۔
حکومتی وزرا سے گفتگو کے دوران جہاں آپ کو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مہنگائی کا جن حکومت کے قابو سے باہر ہے وہیں یہ جان کر افسوس بھی ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس فی الحال مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اس طرح کا ریلیف پیکج دینے کے علاوہ کوئی دوسرا حل موجود نہیں۔
ریلیف پیکج کا اعلان تو کر دیا گیا مگر عمل درآمد کے طریقہ کار کے حوالے سے عوام میں ابہام اور تحفظات پائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے وزیر اعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے بتایا کہ یہ ڈیجیٹل نظام ہے، اس میں دو قسم کے سٹیک ہولڈر ہوں گے، کریانہ سٹور مالکان اور مستحق خاندان، جن کی پہلے مرحلے میں رجسٹریشن کی جائے گی۔
اندارج کا باقاعدہ آغاز اگلے ہفتے سے ہو گا۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر کے مطابق لوگوں سے اپیل کی جائے گی کہ وہ ویب پورٹل پر اپنے شناختی کارڈ نمبر اور رجسٹرڈ موبائل سِم کی معلومات دے کر اپنا اندراج کروا لیں۔ کریانہ سٹور کاروبار کی تصدیق کے حوالے سے چند شرائط رکھی گئیں ہیں جن میں دکانداروں کا بینک اکاؤنٹ ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے انکشاف کیا کہ ملک میں آٹھ سے دس لاکھ ایسے دکاندار ہیں جو صرف پیپر کھاتے پر چلتے ہیں۔ یقیناً حکومت کے لیے ایسے دکانداروں کو رجسٹر کروانا کسی بھی چیلنج سے کم نہ ہو گا۔
دوسری جانب حکومت کا ریلیف پیکج جس غریب متوسط طبقے کے لیے ہے وہ دو وقت کی روٹی سے ایک وقت کی روٹی پر آ گیا ہے۔ اس کے لیے ویب پورٹل پر جا کر معلومات درج کرنے کا عمل مشکل اور پیچیدہ معلوم ہوتا ہے۔
اس پیکج کے اعلان سے جو تھوڑا بہت ریلیف عوام کو شاید مل بھی جانا تھا اسے وزیراعظم نے اپنی اسی تقریر میں یہ کہتے ہوئے ختم کر دیا تھا کہ آگے پیٹرول مہنگا کرنا ہو گا، جو حالیہ نوٹیفیکیشن کے مطابق 145 روپے 82 پیسے فی لیٹر کر دیا گیا۔ یعنی پیکج بناتے وقت جس ریلیف کا اندازہ 1000 روپے فی خاندان لگایا گیا تھا پیکج دیتے وقت اس کا اثر شاید 800 روپے سے بھی کم رہ جائے گا۔
باخبر ذرائع کے مطابق وزیراعظم کو موجودہ صورت حال پر بریفنگ دیتے وقت یہ بھی بتایا گیا کہ مہنگائی اگلے چند ماہ میں کم ہونے کی بجائے مزید بڑھے گی اور اس کے دفاع کے لیے جو حکمت عملی تیار کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ عوام کو بتایا جائے گا کہ مہنگائی صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہے اور باقی دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں ضروری اشیا آدھی قیمت پر فروخت کی جا رہی ہیں۔
عوام کو اب سے یہ ہی کچھ سننے کو ملے گا اور دنیا بھر میں ہونے والی مہنگائی کی مثالیں دی جائیں گی۔
ایسے میں وزیر خزانہ شوکت ترین کا بیان کہ ’مہنگائی کی اصل وجہ آڑھتی ہے‘ حکومتی کارکردگی پر ایک اور سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے آڑھتی کے خلاف کارروائی کی بجائے عوام پر مسلسل مہنگائی کے وار سمجھ سے بالاتر ہیں۔