صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹھہ میں واقع گاؤں آچار سالار سے تعلق رکھنے والے 32 سالہ ناظم جوکھیو کے قتل کیس میں نامزد پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن سندھ اسمبلی جام اویس نے گذشہ رات دو بجے ضلع ملیر کےعلاقے میمن گوٹھ تھانے میں اپنی گرفتاری دے دی ہے۔
جمعے کی صبح پولیس نے ایم پی اے جام اویس کو عدالت میں پیش کیا۔ پولیس حکام کے مطابق مقتول ناظم جوکھیو کے اہل خانہ نے جام اویس کو مقدمے میں نامزد کیا ہے۔
جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر نے ممبر صوبائی اسمبلی جام اویس سمیت فارم ہاؤس کے ملازمین ملزمان حیدر اور میر علی کو بھی تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ہے۔
ڈپٹی انسپیکٹر جنرل آف پولیس ایسٹ زون ثاقب اسماعیل میمن کے مطابق ایف آئی آر ناظم جوکھیو کے بھائی افضل احمد جوکھیو کی جانب سے درج کروائی گئی ہے۔
اس ایف آئی آر میں پانچ افراد کو نامزد کیا گیا ہے جن میں پیپلزپارٹی کے ایم پی اے جام اویس، نیاز سالار، احد سومرو، حیدر علی اور مہر علی شامل ہیں۔
ثاقب اسماعیل میمن کے مطابق اس کیس میں شفاف اور غیر جانبدارانہ تفتیش کرنے کے لیے کراچی ضلع شرقی کے آٹھ پولیس افسران پر مشتمل ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جس کی سربراہی ایس ایس پی ملیرعرفان علی بہادر کریں گے۔
پولیس کے مطابق مقتول نے میمن گوٹھ میں جام اویس کے مہمانوں کو شکار سے روکنے کی وڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی تھی۔ اس کے بعد ناظم کی تشدد زدہ لاش ملیر میں میمن گوٹھ سے ملی۔
ناظم جوکھیو کی عمر 32 سال تھی۔ ان کی تین بیٹیاں اور ایک نو مولود بیٹا ہے۔ وہ ڈسٹرکٹ کونسل کراچی ملیر ڈویژن کے ملازم تھے۔ انہوں نے شعبہ آرٹس میں ایف ایس سے کیا تھا۔
ناظم کے اہل خانہ میں ان کی بیوی اور بچے سمیت 14 افراد ہیں۔ ناظم بڑے بھائی افضل احمد جوکھیو کے مطابق ’ناظم بہت دلیر، بہادر اور غریبوں کی مدد کرنے والا شخص تھا۔ ان کے بہت دوست یار تھے اور گاؤں میں بڑی عزت تھی۔ ناظم ہمیشہ سرداروں اور وڈیروں کے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے تھے۔ وہ وڈیرہ شاہی کو ختم کرنا چاہتے تھے اور وڈیروں کو ان کی یہی چیز بری لگتی تھی۔‘
قتل کے دن اور اس کے بعد کیا ہوا؟
چند روز قبل ناظم جوکھیو اپنے علاقے میں موجود ایک جیپ کو روکا۔ انہوں نے اسی وقت فیس بک پر ایک وڈیو ڈالی جس میں ان کا کہنا تھا کہ اس گاڑی کے اندر بیٹھے افراد ہمیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ہماری سڑک بلاک کر کے کھڑے ہوئے ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ وہ اس علاقے میں کیا کر رہے ہیں، یہ ہمارا علاقہ ہے، تو وہ ہم نے بد سلوکی کر رہے ہیں۔ ہمیں پولیس کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔‘
اس وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ گاڑی سے اترنے والے افراد نے ناظم کا موبائل فون لینے اور وڈیو روکنے کی کوشش کی۔ ناظم کے بڑے بھائی افضل کے مطابق اس گاڑی میں سوار افراد ان کے گاؤں میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ اس علاقے میں تلور نامی پرندے کا شکار کرنے آئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میرے بھائی نے ان سے کہا کہ یہاں شکار کرنا منع ہے تم لوگ یہاں سے چلے جاؤں مگر وہ وہیں پر راستہ روک کر کھڑے ہوگئے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس واقعے کے بعد پیپلزپارٹی کے ایم پی اے جام اویس نے اپنے پرسنل سیکریٹری کے نمبر سے کال کی اور کہا کہ اپنے بھائی کو سمجھاؤ ورنہ میں کچھ بھی کرسکتا ہوں۔ اپنے بھائی کو میرے پاس پیش کرو اور اس سے کہو کہ یہ وڈیو سوشل میڈیا سے ہٹائے۔ میرے بھائی نے یہ کرنے سے منع کردیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جس روز یہ قتل ہوا، اس رات 11 بجے جام سومرو کے بندے آئے اور زبردستی مجھے اور میرے بھائی کو ملیر میمن گوٹھ میں فارم ہاؤس لے گئے۔ انہوں نے میرے سامنے میرے بھائی پر تھوڑا تشدد کیا اور رات تین بجے مجھ سے کہا کہ میں اپنے بھائی کو ان کے پاس چھوڑ کر چلا جاؤں کیونکہ وہ ہماری اور شکار کے لیے آنے والے افراد کی صلح کروائیں گے۔‘
افضل نے بتایا کہ ’میں مجبورا اپنے بھائی کو ان کے بھروسے چھوڑ کر گیا مگر پھر مجھے اطلاع ملی کہ انہوں نے صبح چھ بجے میرے بھائی پر بہت تشدد کرکے قتل کردیا اور اس کی لاش کو میم گوٹھ میں کہیں پھینک دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مجھے گذشتہ رات وزیر اعلی سندھ نے سعید غنی کے نمبر سے کال کی اور یقین دہانی کروائی کہ وہ مجھے اور میرے اہل خانہ کو انصاف دلائیں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ آج ہمارے گھر بھی آئیں گے۔ اس کے بعد آج صبح مجھے خبر ملی میرے بھائی کا قاتل جام اویس گرفتار ہوگیا ہے۔ میں عدالت میں موجود تھا اور میرے سامنے جام اویس کو تین دن کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا گیا ہے۔‘
گذشتہ روز ناظم جوکھیو کے لواحقین اور دیگر مظاہرین نے نیشنل ہائی وے پر شدید احتجاج کیا اور دونوں ٹریک بلاک کردیے جس کے باعث گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں۔ انہوں نے پولیس اور سندھ حکومت کے خلاف بھی شدید نعرے بازی کی اور انصاف کا مطالبہ کیا۔
پیپلزپارٹی کے رکن سندھ اسمبلی جام اویس کے بھائی رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم سے ان کا مؤقف لینے کی کوشش کی مگر ان سے رابطہ قائم نہیں ہوسکا۔
تلور کا شکار کب اور کیوں؟
ایم پی اے جام سومرو کے مہمان سندھ کے شہر ٹھٹھہ میں جس پرندے کا شکار کرنے آئے تھے اس کا نام تلور ہے۔
19 اگست 2015 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے تلور کے شکار پر پابندی عائد کی تھی جبکہ 23 نومبر 2015 کو مسلم لیگ ن کی حکومت نے تلور کے شکار پر پابندی کی تجویز کو ناقابلِ عمل قرار دیا تھا۔
جنوری 2016 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے تلور کے شکار پر عائد پابندی ختم کر دی تھی۔ وفاق کی جانب سے یہ موقف اپنایا گیا تھا کہ تلور کا شکار ملکی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے جسے قبول کر لیا گیا تھا۔