پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ حکومت اور تحریک طالبان پاکستان ایک معاہدے کے تحت ’مکمل سیز فائر‘ پر آمادہ ہو چکے ہیں۔
پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد ایک ریکارڈڈ پیغام میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جو مذاکرات ہو رہے ہیں وہ آئین و قانون کے مطابق ہوں گے۔ ’ظاہر ہے کوئی بھی حکومت پاکستان کے آئین اور قانون کے باہر مذاکرات کر ہی نہیں سکتی۔‘
اپنے ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا کہ ان مذاکرات میں ریاست کی حاکمیت، ملکی سلامتی، متعلقہ علاقوں کے امن، معاشرتی اور اقتصادی استحکام کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا۔
تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے حوالے سے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ان علاقوں کے متاثرہ افراد کو ان مذاکرات میں نظرانداز نہیں کیا جائے گا اور ان کو بھی اعتماد میں لیا جا رہا ہے۔
’مذاکرات کی پیش رفت کو سامنے رکھتے ہوئے فائر بندی میں توسیع ہوتی جائے گی۔‘
فواد چوہدری نے اس ریکارڈڈ پیغام میں مزید کہا کہ ’ان مذاکرات میں افغانستان کی عبوری حکومت نے سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے اور یقینی طور پر یہ بات خوش آئند ہے کہ طویل عرصے بعد پاکستان کے یہ علاقے امن کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘
پاکستانی میڈیا میں گذشتہ کئی روز سے جنگ بندی کی خبریں چل رہی تھیں لیکن یہ پہلی مرتبہ ہے کہ حکومت نے ان کی باضابطہ تصدیق کی ہے۔
انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے ٹی آر ٹی کو دیے انٹرویو کا بھی حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت اور طالبان کے بعض گروہوں کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کی حکومت تحریک طالبان پاکستان کے بعض گروپس کے ساتھ افغانستان میں مذاکرات کر رہی ہے۔
دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے بھی ایک بیان میں فائر بندی اور مذاکرات کی تصدیق کی گئی ہے۔
ٹی ٹی پی قیادت کے اجلاس کے بعد جاری کیے جانے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’یہ حقیقت ہے کہ مذاکرات جنگ کا حصہ ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت اس کا انکار نہیں کر سکتی، لہذا تحریک طالبان پاکستان ایسے مذاکرات کے لیے تیار ہے جس سے ملک بھر میں دیرپا امن قائم ہو سکے۔‘
اعلامیے میں مذاکرات کے اہم نکات بھی شامل کیے ہیں۔
- فریقین نے مذاکراتی کمیٹیوں کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔ یہ کمیٹیاں آئندہ لائحہ عمل اور فریقین کے مطالبات پر مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گی۔
- فریقین کی طرف سے ایک ماہ یعنی نو نومبر سے نو دسمبر تک فائربندی ہوگی، جس میں فریقین کی رضامندی سے توسیع کی جائے گی۔
- فریقین پر فائربندی کا لحاظ رکھنا ضروری ہوگا۔
- افغان طالبان کی حکومت موجودہ مذاکراتی عمل میں تحریک طالبان پاکستان اور حکومت پاکستان کے درمیان ثالث کا کردار ادا کر رہی ہے۔
پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس
قبل ازیں پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اراکین نے تحریک طالبان پاکستان کو ریاست، آئین اور قانون کو پوری طرح تسلیم کرے اور ہتھیار ڈالنے کی صورت میں جدوجہد جاری رکھنے کا موقع دینے پر اتفاق کیا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت ہوا۔
انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار مونا خان کے مطابق اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدس بزنجو نے تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات پر جماعتوں کے ردعمل کے حوالے سے سوال پر کہا کہ ’جو پاکستان کے حق میں بہتر ہے وہی کیا جائے گا اور سب اس کی حمایت کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’وفاق جو فیصلہ کرے گی ہم اس کی حمایت کریں گے۔‘
ایک وفاقی وزیر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ طالبان سے مذاکرات کی تین شرطیں رکھی گئی ہیں۔ نمبر ایک وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کریں، نمبر دو وہ پاکستان کے شناختی کارڈ بنوائیں اور نمبر تین یہ کہ وہ ہتھیار پھینک دیں۔
طالبان کے کس گروہ کے ساتھ بات چیت کی جا رہی ہے اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تمام 12 گروہوں کے ساتھ مذاکرات ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ دو ہزار سے 25 سو سے زیادہ لوگ نہیں ہیں اور ان میں سے دو تہائی تو وہ لوگ ہیں جن کے تحفظات ہیں یا ناراضگی ہے جو حل طلب معاملہ ہے۔
’اگر 80 فیصد ہتھیار ڈال دیں گے تو باقی 20 فیصد کا حل بھی نکال لیں گے۔‘
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ قومی مفاد کے معاملے پر آج اپوزیشن اور حکومت ایک صفحے پر تھی۔
اجلاس سے باہر آنے والے ایک اور پارلیمانی رہنما نے اندپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شہباز شریف نے معاہدے کی تفصیلات پارلیمان میں پیش کر کے اس پر بحث کرانے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے حوالے سے اجلاس کے دوران سیاسی رہنماؤں نے مخالفت نہیں کی۔
ایک اور پارلیمانی رہنما کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی میں اکثریت کی رائے یہی تھی کہ ٹی ٹی پی اگر ریاست، آئین اور قانون کو پوری طرح تسلیم کرے اور ہتھیار ڈال کر اپنی جدوجہد کرتی ہے تو اسے موقع ملنا چاہیے۔
اجلاس کے دوران جب تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات میں ملوث ہونے کے بارے میں سوالات ہوئے پر کہا گیا کہ ہر تصفیے کا آخری حل مذاکرات ہوتا ہے۔ اس لیے اگر طالبان ہتھیار پھینکنے کو تیار ہیں تو اس معاملے کو سپورٹ ملنی چاہیے۔
قومی سلامتی کے اس اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹینیٹ جنرل فیض حمید نے قومی سلامتی امور پر پارلیمان کو بریفنگ دی اور اعتماد میں لیا۔
اجلاس میں اعلیٰ عسکری حکام کے علاوہ اپوزیشن لیڈر، بلاول بھٹو زرداری اور تمام وزرائے اعلیٰ شریک ہوئے۔
تاہم اہم اجلاس میں وزیراعظم پاکستان عمران خان موجود نہیں تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس موقع پر اجلاس میں تحریک لبیک کے ساتھ معاہدے کی تفصیل اور تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر بات چیت کی گئی۔
قومی سلامتی کمیٹی میں موجود چند پارلیمانی رہنما وقفے کے دوران باہر بھی آئے جہاں میڈیا نمائندگان موجود تھے۔ چونکہ میڈیا کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی اس لیے کچھ اجلاس میں شریک اراکین کی باہر آنے پر میڈیا سے بات چیت بھی ہوئی۔
قومی اسلامتی اجلاس کا اعلامیہ بھی جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق پاکستان افعان عوام کی حمایت اور تائید جاری رکھے گا اور افغانستان میں امن کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
اجلاس کے شرکا کومزید بتایا گیا کہ پاکستان نے افغان امن عمل میں پرخلوص طور پر مثبت اور ذمہ دارانہ کردار ادا کیا۔
پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں امید کا اظہار کیا گیا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔
اجلاس میں پاکستان افغانستان سرحد پر بارڈر کنٹرول کے نظام کے بارے میں بھی بتایا گیا۔
اس ان کیمرہ اجلاس میں شریک ایک رکن نے نام نہ بتانے کی شرط پہ بتایا کہ قومی سلامتی کے اجلاس میں عسکری قیادت کی جانب سے بریفنگ دی گئی جبکہ پارلیمانی رہنماؤں نے اس پر اپنی آرا اور سفارشات دیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’سب سے پہلے قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے تفصیلی تبصرہ کیا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ اجلاس کے دوران معاشی صورت حال پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا اور کہا گیا کہ ’معاشی صورت حال اچھی نہیں ہے۔‘
اجلاس کے دوران ٹی ایل پی اور حکومت کے درمیان معاہدے اور اس سلسلے میں ٹی ایل پی رہنماؤں کے خلاف مقدمات ختم کرنے کے حکومتی فیصلے کو ایم کیو ایم کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جبکہ اجلاس سے قبل قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے میڈیا سے گفتگو میں بھی کہا تھا کہ ’اجلاس میں پوچھیں گے کہ تحریک لبیک سے کیا معاہدہ ہوا ہے ہر چیز خفیہ رکھی ہوئی ہے ہمیں کچھ پتہ نہیں ہے۔‘