پاکستان کے الیکشن کمیشن نے پنجاب کے شہر ڈسکہ میں ضمنی انتخابات کے دوران عملے کو اغوا کر کے حکمران جماعت پر دھاندلی کا الزام درست قرار دیتے ہوئے عملے کو آلات دینے کی تجویز دی ہے۔
الیکشن کمیشن نے دو مختلف انکوائری رپورٹس میں کہا ہے کہ پنجاب کے مختلف اداروں سے تعلق رکھنے والے افسران نے سہولت کار کا کردار ادا کیا اور ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے اسٹیبلشمنٹ ونگ نے صوبائی الیکشن کمیشن پنجاب کے جوائنٹ کمشنر عابد حسین اور ڈپٹی ڈائریکٹر اطہرعباسی کو او ایس ڈی بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے اور ساتھی ہی دیگر انتظامی افسران اور عملے کے خلاف فوجداری کارروائی کے لیے سیکرٹری الیکشن کمیشن کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی رپورٹ پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ ہماری تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی حکومت کو قصور وار ٹھہرایا گیا ہے۔‘
نواز شریف جو ان دنوں لندن میں موجود ہیں نے ایک ٹویٹ کے ذریعے کہا کہ ’اگر الیکشن کمیشن نے 2018 کے عام انتخابات میں اپنی ذمہ داری پوری کی ہوتی تو آج ملک کی قسمت مختلف ہوتی۔‘
ECP report on rigging of Daska by-election is the first time in our history that has indicted a government. This augurs well for the future of Pakistan. Had ECP done its duty in 2018 elections, the destiny of the nation would have been different today.
— Nawaz Sharif (@NawazSharifMNS) November 9, 2021
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انتخابی عملے کو دیوائسز دینے سے شفافیت ممکن ہو سکے گی؟
اس حوالے سے سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ ’الیکشن کمیشن عملے کو آلات دے کر یا کوئی بھی انتظام کر کے دھاندلی نہیں روکی سکتی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایسا تب تک نہیں ہو سکتا جب تک بھارت کی طرح الیکشن کمیشن کو براہ راست انتظامی افسران اور عملے کے خلاف کارروائی کا اختیار نہیں دیا جاتا۔‘
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں دھاندلی سے متعلق منصوبہ بندی میں سابق معاون خصوصی وزیر اعلیٰ پنجاب فردوس عاشق اعوان کو بھی ملوث قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹس میں تجاویز سے دھاندلی روکنا ممکن ہوگا؟
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کی جانب سے جو دو انکوائری رپورٹس ڈسکہ ضمنی الیکشن دھاندلی سے متعلق جاری ہوئی ہیں وہ ایک غیر معمولی اقدام ہے جس سے حکمران جماعت ہی دھاندلی میں ملوث پائی گئی ہے۔‘
’الیکشن کمیشن کے پاس ویسے تو کافی سہولیات اور اختیارات موجود ہیں لیکن یہ سب دھاندلی روکنے کے لیے ناکافی ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن کو انتظامیہ سے الیکشن کے دوران لیے گئے افسران اور عملے کے خلاف براہ راست کارروائی کا اختیار ہو تو انتخابی شفافیت زیادہ بہتر ہوسکتی ہے۔‘
کنور دلشاد کے بقول ’الیکشن کے موقعے پر جو افسران اور عملہ الیکشن کمیشن کو دیا جاتا ہے وہ اپنے محکموں کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اب جو اس رپورٹ میں ملوث پائے گئے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے لیکن پنجاب میں حکومت اسی جماعت کی ہے جس پر الزام ہے تو وہ کیا کارروائی کرے گی؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے جو پولنگ عملے کو ڈیوائسز دینے کی تجویز دی ہے وہ بھی بے سود ہوگی کیونکہ دھاندلی میں ملوث ہونے والے عملے کو ایسے نہیں روکا جاسکتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واضح رہے کہ رواں ہفتے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے دو مختلف انکوائری رپورٹس جاری کی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ کسی نہ کسی سطح پر ضمنی الیکشن کے حوالے سے تمام ناپسندیدہ اور غیر قانونی واقعات میں شامل رہی اور انتخابی عہدیداروں اور حکومتی اہلکاروں نے حکام کے ہاتھوں میں کٹھ پتلیوں کے طور پر کام کیا۔
رپورٹ کے مطابق سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر نے اعتراف کیا کہ عمومی طور پر حکومت وقت ضمنی انتخاب میں دباؤ ڈالتی ہیں اور ان سے بھی رابطہ کیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کی مشتبہ مقام پر موجودگی ان کی غیر جانبداری پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے واضح طور پر اس کی تردید کی ہے لیکن وہ مشتبہ مقام پر موجود نہ ہونے کو ثابت نہیں کرسکے کیوں کہ پی ٹی اے سے ان کے موبائل کے حاصل کیے گئے سی ڈی آر سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ان کا سرکاری موبائل 19 اور 20 فروری کی درمیانی رات کے دوران کئی گھنٹوں تک اس علاقے میں استعمال ہوتا رہا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ عملے کو کچھ خاص ہدایات دی گئیں جن کے ریکارڈ کا حصہ ہونے کی وجہ سے ان کے ذہنوں کو الجھا کر انہیں خوفزدہ کر دیا۔
انتخابی اہلکاروں کو غیر قانونی ہدایات دے کر پولنگ عملے کو ہراساں کیا جا رہا تھا اور انہیں اپنی ہدایات کے مطابق عمل کرنے اور فرخندہ یاسمین اور حامد رضا کی ہدایات کی پیروی کرنے پر رضامند کرنے کی کوشش کی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) نے جان بوجھ کر ریٹرننگ افسر کے پاس تاخیر سے سیکیورٹی پلان جمع کروایا تا کہ کسی بھی اعتراض، سوال اور جھول کی نشاندہی سے بچا جاسکے۔ ضلعی پولیس کے سربراہ ہوتے ہوئے ڈی پی اور ایس پی (انویسٹی گیشن) سیالکوٹ انتخاب کے دن اپنے گھروں میں رہے اور ضمنی انتخاب کے انتہائی اہم موقع پر امن و عامہ کی صورتحال میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
لہٰذا یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان دونوں کو پہلے سے ہی معلوم تھا کہ پولنگ والے دن شہر میں امن و امان کی خرابی کے حوالے سے کیا ہوگا، اسی لیے انہوں نے منصوبہ بندی کے مطابق جان بوجھ کر حالات کو خراب ہونے دیا اور امن و عامہ برقرار رکھنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیا۔
رپورٹ میں قرار دیا گیا کہ ضلعی پولیس کو بھی پولنگ کے دن ہونے والے واقعات کا علم تھا اور وہ جان بوجھ کر یا نیم دلی سے اس کی انجام دہی میں حصہ دار بن گئے کیونکہ اس طرح کے ناخوشگوار واقعات کو روکنے کے لیے ضلعی پولیس کی جانب سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے جن کی نشاندہی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے اپنی رپورٹ میں کی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اے ای اوز، پی اوزکے دیے گئے بیانات سے انکشاف ہوا کہ ڈی پی او تخریبی سرگرمیوں میں ملوث تھا اور انتخابی عمل کو خطرے میں ڈالنے اور نتائج کو حکومت کے حق میں تبدیل کرنے کی پوری کوشش کرتا رہا جو کہ اس کی جانب سے ایک مجرمانہ فعل تھا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اسسٹنٹ کمشنر ہاؤس ڈسکہ اس وقت کی وزیر اعلیٰ پنجاب کی مشیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے اجلاسوں کا مرکز بن گیا تھا جہاں انہوں نے مختلف اجلاسوں کی صدارت کی۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ منصوبہ بندی میں وہ بھی شامل رہیں۔
سیاسی ردعمل
سابق معاون خصوصی وزیر اعلی پنجاب فردوس عاشق نے بعد ازاں اپنے بیان میں کہا کہ رپورٹ میں اسسٹنٹ کمشنر آفس میں جس میٹنگ کا تذکرہ کیا گیا وہ حقائق کے برعکس ہے۔ چند نام نہاد ذاتی بغض میں مبتلا افراد الیکشن کمیشن کی رپورٹ پڑھے بغیر سنی سنائی فرضی کہانیوں کو میڈیا میں بیان کرکے میری ذاتی اور سیاسی شہرت کو نقصان پہنچانے کی دانستہ کوشش کر رہے ہیں۔ ’133 صفحات پر مشتمل رپورٹ کو ہائی لائٹ کرنے اور اس میں رنگ بھرنے کے لیے ایک سطر میں میرا نام درج کیاگیاہے۔‘
دوسری جانب اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی شہباز شریف نے ڈسکہ میں ضمنی انتخاب میں بے ضابطگیوں پر الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی انکوائری رپورٹ کے نتائج کی روشنی میں وزیر اعظم عمران خان سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔