چند سال قبل تک شام کے شہر رقہ کے النعیم سکوائر پر شدت پسند تنظیم داعش کی جانب سے لوگوں کو سرعام سزائیں دی جاتی تھیں، لیکن آج مقامی و غیر مقامی سیاح اس چوک پر بنائی گئی سجاوٹی محرابوں کے نیچے بیٹھے نظر آتے ہیں۔
2014 اور 2017 کے درمیان داعش کے دور اقتدار میں النعیم سکوائر ٹریفک سے بھرا ایک چوک تھا، جہاں یہ تنظیم لوگوں کو سرعام پھانسی پر لٹکا دیا کرتی تھی۔
ایک 24 سالہ مقامی نوجوان مناف نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’یہ کبھی جہنم کا گول چکر تصور کیا جاتا تھا۔ وہاں کٹے ہوئے سر لٹکائے جاتے تھے لیکن اب بات الگ ہے۔ اب شہری اور پیار کرنے والے یہاں ملنے آتے ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ النعیم سکوائر اپنے حقیقی نام (جنت) کی طرف واپس آگیا ہے۔ لوگ باہر نکلتے ہیں اور وہ محفوظ ہیں۔ یہ پہلے سے بہت بہتر صورتحال ہے۔‘
رقہ کے ایک اور رہائشی احمد الحمد نے کہا: ’کلاک ٹاور سکوائر پر روزانہ یا ہر دوسرے دن سزائے موت دی جاتی تھی۔ وہ لوگوں کا تلواروں سے سر قلم کرتے تھے۔ ان کے سر اور ہاتھ کاٹ دیتے تھے۔ ہمیں اس سے نفرت تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا: ’یہ افسوسناک تھا۔ ہمارے اندر اس چوک سے گزرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ ہمیں ڈر تھا کہ وہ ہم پر بھی کوئی الزام لگا دیں گے اور داعش ہمارا بھی سر قلم کر دے گی۔‘
عبدالماجد عبد اللہ نامی رقہ کے رہائشی نے بتایا: ’جو کچھ یہاں ہوتا تھا وہ ہم دیکھتے تھے۔۔ یہ ہولناک اور خوفناک تھا۔ ہمیں خوف تھا کہ ہمارے سامنے کسی کا سر نہ قلم کر دیں۔ یہ چوک خالی تھا۔ یہاں کوئی شخص، مزدور یا کوئی کاروبار نہیں تھا، یہاں کوئی قریب سے بھی نہیں گزرتا تھا۔ وہ صرف پھانسی کے لیے لوگوں کو جمع کرتے تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’لیکن اب یہ سبزی بیچنے والوں، ریستورانوں اور مزدوروں کے لیے روزی کمانے کی جگہ بن گئی ہے۔ لوگوں نے روزی کمانا شروع کر دی ہے کیونکہ یہ چوک شہر کا ایک تاریخی نشان ہے۔‘