یزیدی بچی کو پیاسا مارنے والی داعش کی خاتون رکن کو سزا

خاتون کی شناخت نجی کوائف کے تحفظ کے جرمن قانون کے تحت مخفی رکھی گئی ہے اور صرف نام کی تفصیل میں جینیفر ڈبلیو بتایا گیا ہے، جن کی عمر 30 برس ہے۔

جنوبی جرمن شہر میونخ کی عدالت میں سزا سننے کے لیے آتے وقت جینفر نے  چہرہ فولڈر کے پیچھے چھپا دیا (اے ایف پی)

ایک جرمن عدالت نے ایک نو مسلم جرمن خاتون جینیفر ڈبلیو کو ایک یزیدی بچی کے قتل میں ملوث ہونے کے جرم پر 10 سال کی قید سنا دی ہے۔

یہ جرمن خاتون اسلام قبول کرنے کے بعد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ المعروف داعش میں شریک ہوگئی تھیں۔

خاتون کی شناخت نجی کوائف کے تحفظ کے جرمن قانون کے تحت مخفی رکھی گئی ہے اور صرف نام کی تفصیل میں جینیفر ڈبلیو بتایا گیا ہے، جن کی عمر 30 برس ہے۔

جینیفر ڈبلیو کا ایک جرم ایک پانچ سالہ یزیدی بچی کو غلام بنا کر بھوکا اور پیاسا رکھنا ہے۔ اس اذیت کی وجہ سے اس بچی کا انتقال ہو گیا تھا۔

عدالت میں استغاثہ کی جانب سے جو دستاویزی ثبوت جمع کروائے گئے ہیں، ان کے مطابق یہ خاتون داعش کی مددگار ہونے کے ساتھ اقدام قتل کی کوششوں میں بھی شامل تھیں۔ یہ خاتون جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں بھی ملوث رہی ہے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ جینیفر ڈبلیو تبدیلئ مذہب کے بعد جب عملی طور پر داعش کا حصہ بن گئیں تو وہ تنظیم کے مختلف فیصلوں میں شامل رہتی تھیں اور انتظامی معاملات میں بھی ان سے رائے لی جاتی تھی۔

جینیفر ڈبلیو کے شوہر داعش کے ایک جنگجو تھے۔ استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ خاتون کے شوہر نے بچی کو زنجیریں ڈال کر مکان کے دالان میں بغیر کسی مناسب حفاظت کے شدید گرمی میں چھوڑ دیا تھا۔ اس سارے عمل میں خاتون کی مرضی شامل تھی۔ اس بچی کو پانی دینے کی بجائے اس کے گدے (میٹرس) کو گیلا کر دیا جاتا تھا۔

جینیفر ڈبلیو کو جرمن حکام نے سن 2018 میں اس وقت گرفتار کیا جب وہ شام سے واپس اپنے ملک میں داخل ہونے کے لیے روانہ ہوئی تھی۔

جینیفر ڈبلیو مسلمان ہونے کے بعد جب شام پہنچ کر داعش کی انتظامی کارروائیوں کا عملی حصہ بن گئیں تو انہیں ’مورال‘ (اخلاقی) پولیس میں شامل کر دیا گیا تھا۔

وہ اس پولیس کا حصہ رہتے ہوئے داعش کے زیر قبضہ عراقی شہروں فلوجہ اور موصل کے پارکوں اور بازاروں میں گشت کرتے ہوئے خواتین پر کڑی نگاہ رکھتی تھی کہ انہوں نے تنظیم کے طے کردہ ضوابط کے مطابق لباس پہن رکھا تھا یا نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پریذائیڈنگ جج جواچیم بائیر نے مدعا علیہ کو بیرون ملک ایک دہشت گرد تنظیم سے تعلق رکھنے کے ساتھ ساتھ قتل کی کوشش اور انسانیت کے خلاف جرم میں مدد اور ترغیب دینے کا مجرم پایا، جس کے نتیجے میں بچی کی موت واقع ہوئی۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بچی کو براہ راست دھوپ میں ’بے بس اور بے سہارا‘ چھوڑ دیا گیا تھا اور مدعا علیہ نے بچی کی مدد نہیں کی حالانکہ یہ ’ممکن اور توقعات کے مطابق‘ ہوتا۔

ہلاک ہونے والی لڑکی کی ماں نے، جس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے، گواہی دی کہ جیسے ہی انہیں احساس ہوا کہ ان کی بچی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، وہ پریشانی سے رونے لگیں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اس کے جواب میں جینیفر ڈبلیو نے دھمکی دی تھی کہ اگر وہ نہ رکیں تو انہیں گولی مار دی جائے گی۔

جرمن استغاثہ نے خاتون کے لیے عمر قید کی سزا دینے کی درخواست کی تھی لیکن عدالت نے صرف دس برس کی سزائے قید سنائی۔

انسانی حقوق کی وکیل امل کلونی نے، جو اس کیس میں بچی کی والدہ کی نمائندگی کرنے والی قانونی ٹیم کا حصہ تھیں، سزا کا خیر مقدم کیا۔ یہ پانچویں بار ہے جب جرمن عدالت نے دولت اسلامیہ کی ایک سابق رکن کو یزیدی متاثرین کے ساتھ ان کے سلوک پر انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب پایا۔

امل کلونی نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ میرے موکل کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے اور یہ ہر اس شخص کی فتح ہے جو انصاف پر یقین رکھتا ہے۔ میں جرمن استغاثہ کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے یہ مقدمہ پیش کیا اور مجھے امید ہے کہ ہم داعش کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے مزید ٹھوس عالمی کوششیں دیکھیں گے۔‘

جرمن ذرائع ابلاغ کے مطابق جب فیصلے کا اعلان کیا گیا تو جینیفر ڈبلیو حیران نظر آئیں اور پہلے اپنے ہاتھوں اور پھر چھت کو گھورتی رہیں۔ انہوں نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اصرار کیا تھا کہ وہ اپنے داعش کے رکن شوہر کو روکنے کا حق نہیں رکھتی تھیں، جس نے فلوجا میں اپنے گھر کے صحن میں زنجیریں باندھ کر بچی کو سزا دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین