بھارت میں سوشل میڈیا پر ایک منظم مہم چلائی گئی ہے کہ مسلمان جمعے کے دن سڑک یا کسی اور کھلی جگہ پرچٹائیاں ڈال کر نماز پڑھتے ہیں جس کی وجہ سے باقی شہری پریشان ہوتے ہیں لہٰذا یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
29 ستمبر کو ایک شخص کی ویڈیو وائرل ہو گئی جو دہلی کے قریب گڑگاؤں نامی قصبے میں جمعے کی نماز کے اجتماع کے خلاف احتجاج کر رہا تھا۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک مہم شروع ہو گئی جس میں اعتراض کیا گیا کہ مسلمان ہر جمعے کو مختلف شہروں میں سڑکوں اور گلیوں میں چٹائیاں بچھا کر نماز پڑھتے ہیں اور دوسروں کا راستہ بند کر دیتے ہیں۔
اس کے بعد سے اب تک مسلسل پانچ ہفتوں تک ہندو تنظیمیں جمعے کی نماز کے اجتماع میں خلل ڈال رہی ہیں۔
پانچ نومبر کو اسی مقام پر ہندوؤں نے ایک ہندو میلے کے تحت پوجا بھی کی۔ اس وقت کشیدگی میں اضافہ ہو گیا جب ان تنظیموں نے اس پوجا میں حکمران جماعت بی جے پی کے رہنما کپل مشرا کو بھی شرکت کی دعوت دے دی۔
یوں تو کہنے کو یہ ’بھارت ماتا واہنی‘ اور ’سنیوکت ہندو سنگھرش اسمیتی‘ نامی کٹر انتہا پسند تنظیموں نے چلائی تھی لیکن بات اس وقت واضح ہوئی جب وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی اس پر لب کشائی کی۔
30 اکتوبر کو وزیر داخلہ نے اترا کھنڈ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’جب میں آ رہا تھا تو مجھے کہا گیا کہ آپ کو نہیں پتہ کہ آج سڑک بند ہو گی۔ میں نے کہا کیوں؟ تو کہنے لگے کہ جمعہ ہے اور مسلمان نماز پڑھیں گے۔‘
انہوں نے کانگریس پر بھی الزام لگایا کہ اس نے مسلمانوں کو نوازنے کے علاوہ اور کیا کام کیا ہے اور یہ کانگریس ہی ہے جو سڑکوں اور کھلی جگہوں پر نماز پڑھنے کی اجازت دیتی تھی۔
امت شاہ کی طرف سے کانگریس پر لگایا گیا کہ یہ الزام درست نہیں ہے کیونکہ اتنا عرصہ اقتدار میں رہتے ہوئے انہوں نے مسلمانوں کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔ یہ صرف مسلمانوں کا کہنا نہیں بلکہ خود حکومتی اعداد و شمار بھی یہی کہتے ہیں۔
2005 میں من موہن سنگھ کی یو پی اے سرکار نے مسلمانوں کے متعلق جاننے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ سات ارکان پر مشتمل اس کمیٹی کے چیئرمین دہلی ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس راجندر سچر تھے، جنہوں نے 2006 میں حکومت ہند کو 403 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ جمع کروائی۔
اس رپورٹ کو ’سچر رپورٹ‘ کہا جاتا ہے، جس میں بھارتی مسلمانوں کی زبوں حالی کا کھل کر ذکر کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو اوپر اٹھانے کے لیے کچھ تجاویز بھی دی گئی ہیں۔ یہ رپورٹ وزارت برائے اقلیتی امور کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔
گروگرام کی جس جگہ پر مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکا گیا، اس پر بعد میں یعنی پانچ نومبر کو ’گوواردن پوجا‘ تہوار منایا گیا، جس میں بی جے پی کے نیتا کپل مشرا نے بھی شرکت کی۔ یہ وہی کپل مشرا ہیں جنہوں نے 2019 میں شہری ترمیمی بل کے خلاف پر امن احتجاج کرنے والے شہریوں کو کھلے عام دھمکایا تھا۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد شمال مشرقی دہلی میں ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے۔
2020 میں دہلی کے اسمبلی الیکشن کو بھارت میں پاکستان کی فتح سے تعبیر کیا گیا تھا۔ مشرا، جنہیں اس سے پہلے یعنی 2015 کے اسمبلی انتخابات میں خود بھی کیجریوال کی عام آدمی پارٹی کے ٹکٹ پر جیت کر ’آبی وسائل‘ کا وزیر بنایا گیا تھا، نے کیجریوال کی جیت کو پاکستان کی جیت سے تشبیہ دی تھی۔
اس سے پہلے 2018 میں بھی نماز والا معاملہ موضوع بحث بنا تھا، لیکن اس وقت گروگرام میں نہیں بلکہ دہلی اور یوپی کے سنگم پر واقع شہر نوئیڈا میں یہ معاملہ اٹھا تھا۔
نوئیڈا میں اداروں میں نوکری کرنے والے مسلمان بریک کے دوران پارکوں میں نماز ادا کرتے تھے۔ یوپی میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت ہے جو مسلمانوں کے کٹر خلاف سمجھے جانے والے بھاجپا سیاستدان ہیں۔ 2018 میں اتر پردیش پولیس نے نوئیڈا میں تمام پرائیویٹ کمپنیز کو یوپی سرکار کا پیغام بھیجا کہ کوئی بھی ملازم پارکوں میں نماز ادا نہیں کرے گا۔
نوئیڈا اور گروگرام دونوں شہروں کی خصوصیت یہ ہے کہ دہلی کے باہر زیادہ تر پرائیویٹ کمپنیز کے آفس انہی شہروں میں ہیں۔ دہلی سے باہر کمپنیز اس لیے بھی یہاں اپنے دفاتر کھولتی ہیں کیونکہ ایک تو یہ دہلی کے قریب تر ہیں اور دہلی کی میٹرو ان دونوں شہروں تک چلتی ہے اور دوسرا دہلی کے باہر کے لوگ بھی یہاں بآسانی ملازمت کے لیے آ جا سکتے ہیں۔
کٹر پنتھوں کو لفظ ’جہاد‘ سے شدید تحفظات ہیں۔ کوئی بھی بات ہو تو اس کے ساتھ جہاد کا لاحقہ لگا دیا جاتا ہے۔ 2020 میں جب کرونا آیا تو ’ہندی میڈیا‘ جسے حکومت نوازی کے لیے گودی میڈیا بھی کہا جاتا ہے، نے اسے ’کرونا جہاد‘ کہنا شروع کر دیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ تبلیغی جماعت کی وجہ سے پھیلا ہے۔
تبلیغی جماعت کے سالانہ اجتماع میں، جو ان کے مرکز نظام الدین میں پہلے سے ہی طے شدہ تھا، کرونا کے آتے ہی کچھ باہر کے لوگ پھنس گئے تھے، جس کے بعد میڈیا پر ایک سازشی واویلا کیا گیا۔ سال سے زیادہ عرصے کے لیے مرکز نظام الدین بند رہا تھا، جس کے بعد رواں سال اپریل میں دہلی ہائی کورٹ کے حکم پر مرکز میں نماز پڑھنے کی مشروط اجازت ملی۔
حکومت کی دہری پالیسی کا اندازہ یہیں سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف مرکز پر کرونا کا بہانہ بنا کر تالا لگایا گیا لیکن وہیں الہ آباد جو اب پریاگ راج کہلاتا ہے میں دنیا کا سب سے بڑا میلہ ’کمبھ میلہ‘ منعقد کروایا گیا، جس میں کروڑوں زائرین حصہ لیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گو کہ انتہا پسندوں سے بھارت کا ہر طبقہ اس وقت خوفزدہ ہے لیکن ان میں سب سے زیادہ ہدف پر مسلمان ہیں۔
گذشتہ ماہ ٹوئٹر اور فیس بک پر ’بین فار حلال پراڈکٹس‘ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا تھا۔ ان کا مؤقف تھا کہ حلال سرٹیفکیٹ ہی ایشو نہیں ہونے چاہییں۔ حلال سرٹیفکیٹ کو سخت گیروں نے ’اکنامک جہاد‘ کا نام دیا اور اسے بھی حکمران جماعت کے بعض نیتاؤں کی حمایت حاصل تھی۔
2015 میں اتر پردیش کے ضلع غازی آباد کے علاقے دادری میں ایک مسلمان کو گائے کا گوشت رکھنے کے شبے پر مارا گیا تو سماج وادی پارٹی کے لیڈر اعظم خان نے اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے جانے کی بات کی تھی۔ اعظم خان نریندر مودی اور بھارت کے صدر کو ’بیف‘ یعنی بڑے کے گوشت پر راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن کی دعوت بھی دے چکے ہیں۔
انتہا پسندوں کی اگر اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ ’حلال سرٹیفکیٹ‘ ایشو نہیں ہونے چاہییں تو بھارت جو گوشت کی بہت بڑی تجارت کرتا ہے اور زیادہ تر برآمدات وسطی ایشیا وغیرہ میں جاتی ہیں تو حلال سرٹیفیکیٹس کے بعد کیسے ممکن ہو پائیں گی؟
24 اکتوبر کے ٹی 20 ورلڈ کپ میچ کے بعد محمد شامی کے مذہب کی بنیاد پر انہیں خوب ٹرولنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ کپتان وراٹ کوہلی جب شامی کے حق میں میدان میں آئے تو توپوں کا رخ ان کی طرف مڑ گیا۔
ابھی پچھلے مہینے شمال مشرقی ریاست تریپورہ میں مسجدوں اور مسلمانوں کی جائیدادوں کو نقصان پہنچایا گیا اور تشدد کی ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں۔ مین سٹریم میڈیا نے سُنی کو اَن سنی کر دیا۔ تریپورہ میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ اس سے پہلے رواں سال ہی پوڈو چری میں گورنر آرڈیننس کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی۔