شمالی بھارت کے ایک گاؤں میں رات گئے غیار حسن کے ہندو پڑوسیوں نے ان کے گھر پر پتھراؤ کیا اور ان کی ورکشاپ کو آگ لگا دی۔ یہ سب اس لیے کیا گیا کیوں کہ ان کے بیٹے نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ کو 'لائیک' کیا تھا۔
مارچ کے آخر میں ایک ارب 30 کروڑ آبادی والے اس ملک میں کرونا (کورونا) وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا اور فیس بک کی وہ پوسٹ، جس کو غیار حسن کے 19 سالہ بیٹے نے لائیک کرنے کا 'جرم' کیا تھا، میں اس وبا کے دوران بھارت کی مسلم اقلیت کو نشانہ بنانے کی مذمت کی گئی تھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق واقعے کے بعد مقامی پولیس نے دو افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس خاندان کے مردوں کو داڑھی رکھنے اور مسلمانوں کی روایتی ٹوپی پہننے پر مزید دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
ریاست ہریانہ کے ہندو اکثریت والے گاؤں کیورک کے رہائشی 55 سالہ غیار حسن نے اے ایف پی کو بتایا: 'میرے آباؤ اجداد یہاں رہتے تھے اور میں اسی جگہ پیدا ہوا تھا۔'
بطور ویلڈر کام کرنے والے حسن نے مزید کہا: 'ہم یہاں ایک کنبے کی طرح رہتے تھے اور یہاں مذہب کبھی بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا لیکن اب ہر طرف خوف و ہراس اور نفرت کا ماحول ہے۔'
کرونا وائرس کے بارے میں دانستہ غلط معلومات پھیلانے کے الزام میں حسن کے خاندان پر حملہ ایسے واقعات کی تازہ ترین کڑی ہے، جن میں بھارت کے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
دوسری جانب ہندو قوم پرست کرونا وائرس کو مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ یہ قوم پرست آن لائن پلیٹ فارمز اور کچھ قومی میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں پر اس وبا کو پھیلانے کا الزام لگا رہے ہیں۔
ناقدین وزیر اعظم نریندر مودی کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ بھارت کو ایک 'ہندو راشٹر' بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کی حکومت نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی سیکولر اور ہم آہنگی پر مبنی اساس کو مجروح کیا ہے۔
گذشتہ دو ماہ کے دوران اے ایف پی کی فیکٹ چیک ٹیم نے سینکڑوں ایسی سوشل میڈیا پوسٹوں کی چھان بین کی ہے، جن کا استعمال کرتے ہوئے بھارت میں کرونا وائرس کے حوالے سے مسلمانوں کو غلط طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔
ایسی جعلی اور مشکوک ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ مسلمان ریڑھی بان کرونا وائرس پھیلانے کے لیے پھل اور سبزیاں چاٹ رہے ہیں اور لاک ڈاؤن قوانین کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اے ایف پی کی ایک تصویر کو فیس بک اور ٹوئٹر پر اس غلط دعوے کے ساتھ بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا کہ چھت پر نماز پڑھ کر بھارتی مسلمان سماجی دوری کے اصولوں کو پامال کر رہے ہیں۔ درحقیقت یہ تصویر دبئی کی ہے جہاں مسلمان نماز ادا کر رہے ہیں۔
لاکھوں آن لائن نفرت انگیز پوسٹوں کو 'کرونا جہاد' کے ہیش ٹیگ کے ساتھ شیئر کیا گیا جن میں مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ارکان بھی شامل ہیں۔
اس نفرت انگیز مہم کو اضافی ایندھن اس وقت مہیا ہوا جب یہ بات سامنے آئی کہ مسلمانوں کی تبلیغی جماعت نے نئی دہلی میں ہونے والے ایک مذہبی اجتماع کے دوران کرونا وائرس کی احتیاطی ہدایات کو نظرانداز کیا تھا۔
ایک موقع پر اس جماعت کو بھارت بھر میں کرونا وائرس کے کیسز کی تقریباً ایک تہائی تعداد سے منسلک کیا گیا۔ تبلیغی جماعت کے ارکان یا اس اجتماع میں شرکت کرنے والے 40 ہزار افراد کو قرنطینہ کیا گیا۔
اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز کے ساتھ ساتھ حکومت پر بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور کشیدگی بڑھانے کا الزام عائد کیا گیا۔ بعض اینکرز نے تو تبلیغی جماعت کے ارکان کو 'انسانی بم' تک قرار دے دیا۔
اس طرح کی غلط معلومات پھیلنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف تشدد اور غصے کی لہر نے جنم لیا اور بھارت بھر میں مسلمان ٹرک ڈرائیوروں اور خانہ بدوشوں پر حملے کیے گئے اور مسلمان دکانداروں کا بائیکاٹ اور انہیں دھمکیاں دینے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا۔
پولیس کی جانب سے تصدیق شدہ ایک فیس بک ویڈیو میں خون میں لت پت ایک نوجوان مسلمان دیکھا جا سکتا ہے جسے لاٹھیوں سے پیٹا گیا اور وہ ہجوم سے رحم کی التجا کر رہا ہے جبکہ ایک حملہ آور زخمی نوجوان سے پوچھتا ہے کہ اسے کرونا وائرس پھیلانے کے لیے کس نے بھیجا ہے۔
دوسری جانب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پولیس کے سربراہ سمیت دیگر بھارتی رہمناوں نے کرونا وائرس پھیلانے کا الزام پاکستان پر عائد کر دیا ہے۔
بھارت میں مسلم دشمنی نے خوفناک شکل اختیار کرلی ہے، جہاں کچھ دیہاتوں میں 'مسلمانوں کا داخلہ منع ہے' جیسے پوسٹر آویزاں ہیں۔
اسی طرح ایک بھارتی ہسپتال نے مسلمانوں کے علاج سے معذرت کر لی۔
بھارت کے تقریباً 20 کروڑ مسلمان طویل عرصے سے مودی کے دور حکومت میں بڑھتی ہوئی نفرت اور تشدد کی شکایت کر رہے ہیں۔
2002 میں جب نریندر مودی مغربی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، مذہبی فسادات کے دوران ایک ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے تھے۔
وزیر اعظم بننے کے بعد مودی کے دورِ حکومت میں 'گاؤ رکشک' کے نام پر کئی مسلمانوں کو مشتعل ہجوم نے مار مار کر ہلاک کر دیا۔
گذشتہ سال مودی کی دوسری مدت حکومت بھارت کی واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کی خود مختار حثیت کو منسوخ کرنے کے ساتھ شروع ہوئی تھی جس کے بعد انہوں نے شہریت کے متنازع قانون کے ذریعے مسلمان آبادی میں خوف و ہراس پیدا کر دیا۔
رواں سال فروری میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف ملک گیر احتجاج کے دوران دہائیوں کے بدترین فسادات میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے جن میں دو تہائی مسلمان تھے۔
بی جے پی کے ایک مقامی رکن پارلیمان پر الزام ہے کہ انہوں نے دہلی فسادات کی آگ کو بھڑکایا تھا۔
دوسری جانب بی جے پی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
وزیر اعظم مودی نے کرونا کی وبا کے دوران مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کے بعد عوامی طور پر اتحاد اور بھائی چارہ قائم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تناؤ کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے ٹویٹ میں لکھا کہ کرونا وائرس حملے سے پہلے نسل، مذہب، رنگ، ذات، مسلک، زبان یا سرحدیں نہیں دیکھتا۔
تاہم اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم ایک سول سوسائٹی کی تنظیم 'انڈین مسلمز فار دا پروگریس اینڈ ریفارمز' سے وابستہ شاہد صدیقی نے کہا کہ اس نفرت کو بھڑکانے میں ریاست براہ راست ملوث ہے۔
شاہد صدیقی نے اے ایف پی کو بتایا: 'پہلے ہی منظم پروپیگنڈے کے تحت مسلمانوں کو بدنام کیا گیا اور انہیں خطرناک قرار دیا گیا تھا۔'
صدیقی نے کہا کہ کرونا کی وبا نے ایک نئی جہت کا اضافہ کرکے مسلمانوں کو 'اچھوت' میں تبدیل کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا اور حکومت نے جان بوجھ کر یہ کوشش کی ہے کہ وہ عوام کی توجہ ملک کو درپیش بحرانوں سے ہٹا کر نفرت انگیز سیاست سے حکمرانی جاری رکھیں۔