قومی احتساب بیورو (نیب) نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز کی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت میں بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے مزید ثبوت پیش کرنے کے لیے مہلت مانگ لی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے مریم نواز کی اپیل کی سماعت کی جس میں نیب کے پراسیکیوٹر نے چھ ہزار صفحات پر مشتمل ثبوتوں سے متعلق دستاویزات پیش کیں۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن محمد صفدر دوسرے مسلم لیگی رہنماؤں کے ساتھ کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی بار بار نیب پراسیکیو ٹر سے کوئی ایسا ثبوت عدالت کے سامنے پیش کرنے کا کہتے رہے جس سے مریم نواز کا ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی ملکیت ثابت ہو سکے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ فوجداری مقدمات میں استغاثہ کو پہلے اپنا کیس ثابت کرنا ہوتا ہے اس کے بعد ملزم کو صفائی کا موقع ملتا ہے۔
جج صاحبان کا موقف تھا کہ نیب کو ایسی شہادتیں پیش کرنا ہوں گی جو بغیر کسی شک و شبہے کے ثابت کریں کہ مریم نواز ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی مالکن ہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے ایک سے زیادہ مرتبہ نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایون فیلڈ اپارٹمنٹس غیر قانونی طریقے سے حاصل کی گئی دولت سے حاصل کیے بھی گئے ہیں تو اس میں مریم نواز کا کیا قصور ہے کیونکہ یہ فلیٹس انہیں اپنے والد کی طرف سے تحفتاً ملے ہیں۔
نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ برٹش ورجن آئی لینڈ کی انتظامیہ کی جانب سے موصول ہونے والا ایک خط ثابت کرتا ہے کہ مریم نواز مذکورہ جائیداد کی مالکن ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیب قانون کے تحت بیرون ملک سے آنے والی کوئی بھی دستاویز ثبوت کے ذمرے میں استعمال کی جا سکتی ہے۔
اس پر جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ نیب قانون میں بیرون ملک سے آنے والی دستاویز کو ثبوت کا حصہ بنا لیا تاہم اسے ثابت بھی کرنا ہو گا کہ یہ کس حد تک درست ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بیرون ملک سے موصول ہونے والی دستاویز کو بھی پاکستان کے قانون شہادت کے اندر رہتے ہوئے پرکھا جائے گا۔
نیب پراسیکیوٹر نے شریف خاندان اور بعض پاکستانی اداروں کے درمیان خط و کتابت کا بھی حوالہ دیا جس میں مبینہ طور پر مریم نواز نے ایون فیلڈ فلیٹس کی ملکیت قبول کی ہے۔
اس دلیل کے جواب میں جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بعض اداروں یا افراد کے درمیان ہونے والے خط و کتابت کو ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا اور ایسا کرنے کی صورت میں خطوط لکھنے والوں کو گواہ کے طور پر عدالت میں طلب کرکے حقائق کی تصدیق کی جانی ضروری ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے ایک موقعے پر کہا کہ آف شور کمپنیز رکھنا غیر قانونی نہیں ہے اور ان کی ملکیت کمپنیز کے بیئرر سرٹیفکیٹ ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ’دیکھنا ہوگا کہ دو کمپنیز کے بیئرر سرٹیفکیٹس کس کے پاس ہیں۔‘
ایک دوسرے موقعے پر جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ ’مذکورہ جائدادیں 1980 میں حاصل کی گئیں تھیں اور اس وقت تو شاید مریم پیدا بھی نہ ہوئی ہوں۔‘
کمرہ عدالت میں موجود مریم نواز نے اپنے ساتھ بیٹھے مسلم لیگ نواز کے رہنما محمد زبیر کے کان میں کچھ کہا اور انہوں نے مریم نواز کے وکیل عرفان قادر کو پیغام دیا جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ 1980 میں مریم نواز کی عمر سات سال تھی۔
جسٹس عامر فاروق نے مزید کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ایون فیلڈ سے متعلق مقدمہ قائم ہونے تک ان جائیدادوں کے کئی مالکان بدل گئے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ عدالتیں عوامی آرا یا ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتیں بلکہ خصوصا فوجداری مقدمات میں ٹھوس ثبوت درکار ہوتے ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’آپ کو ہماری بات سمجھنا چاہئیے کہ ہم ہر صورت قانون کے اندر رہتے ہوئے چیزوں کو دیکھیں گے اور اس کے لئے ہر قسم کے شک و شبہے سے بالاتر شواہد چاہیے ہیں جو آپ کے الزام کو ثابت کر سکیں۔‘
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ جج صاحبان کے تمام سوالات اپنے پاس لکھ رہے ہیں اور آئندہ سماعت میں ان تمام کا جواب دیں گے۔