صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کے سرکاری گرلز ہائر سیکنڈری سکول رجڑ میں ان طالبات نے سیکنڈ شفٹ میں داخلہ لینا شروع کر دیا ہے جنہیں گھر سے دور کالج جانے کی اجازت نہیں تھی یا وہ کسی بھی وجہ سے صبح کے وقت تعلیم نہیں حاصل کر سکتی تھیں۔
چارسدہ کے علاقے رجڑ میں واقع گورنمنٹ گرلز ہائر سیکنڈری سکول کی پرنسپل ازرجان کے مطابق رواں ماہ یکم نومبر سے گیارویں جماعت میں طالبات کو داخلہ دینا شروع کر دیا گیا ہے۔
اب تک 44 طالبات نے پری انجینیئرنگ، پری میڈیکل، کمپیوٹر سائنس اور ہیومینٹیز گروپس میں داخلہ لیا ہے جس کے لیے 10 سبجیکٹس سپیشلسٹ ٹیچرز رکھے گئے ہیں۔
پرنسپل ازرجان نے کہا کہ چارسدہ میں تین ہائر سیکنڈری سکولز کا انتخاب کیا گیا ہے جہاں سیکنڈ شفٹ میں کلاسز منعقد ہوں گی، جن میں گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول رجڑ، گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول ہری چند اور مٹہ پلنگ زئی ہائر سیکنڈری سکول شامل ہیں۔
میٹرک کے بعد ان طالبات کو داخلہ کیوں نہ ملا؟
پرنسپل ازرجان نے بتایا طالبات کے سکولز یا کالجز میں داخلہ نہ لینے کی بہت سی وجوہات ہیں، ایک یہ کہ بچوں کے گھروں سے ہائر سیکنڈری سکولز یا کالجز کا فاصلہ زیادہ تھا اور دوسرا کہ یہاں پر غربت زیادہ ہے تو بچیاں مزدوری وغیرہ کرتی تھیں، گھروں میں کام کرتی تھیں اس وجہ سے صبح وقت نہیں ملتا تھا۔
اس کے ساتھ داخلے کے لیے درکار میرٹ زیادہ ہوتی تھی یا والدین یا بڑے بھائی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ گاؤں یا شہر سے باہر کالج یا دور دراز کالجز کو جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنے علاقوں میں ہائر سیکنڈری سکول میں سینکنڈ شفٹ میں کلاسوں کا مہیا ہونا اب ان طالبات کے لیے سہولت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سکول کی پرنسپل ازرجان نے بتایا کہ ان کے پاس 44 طالبات اس شفٹ میں زیر تعلیم ہیں اور تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
سیکنڈ شفٹ میں داخلہ لینے والی ایک طالبہ مریم نے انڈپینڈنٹ اردوکو بتایا: ’میں نے یہاں سے میٹرک سائنس کے مضمون میں پاس کیا تھا لیکن مجھے گھر سے اجازت نہیں تھی کیونکہ میں صبح کے وقت کسی کے گھر میں کام کرتی تھی اور چھوٹی بہن اور بھائی بھی گھر میں ہوتے تھے، والدہ کپڑوں کی سلائی کڑھائی کا کام کرتی تھیں۔ اب میں نے سیکنڈ شفٹ میں پری میڈیکل میں داخلہ لیا ہے اور یہاں پر کالج کی کلاسز بھی شروع ہوگئی ہیں۔‘
گورنمنٹ گرلز ہائر سیکنڈری سکول رجڑ کی سیکنڈ شفٹ میں پڑھنے والی طالبہ عروج نے انڈیپنڈنٹ اردوکو بتایا: ’میں نے اس سکول سے میٹرک پاس کیا تھا اور میرے گھر سے کالج بہت دور تھا اس لیے مجھے اجازت نہیں مل رہی تھی، میرے بڑے نہیں مانتے تھے کہ میں دور کے کالج میں جاؤں اور تعلیم حاصل کروں تو جب رجڑ سکول میں سیکنڈ شفٹ میں کالج کھل گیا ہے تو مھجے بہت خوشی ہوئی اور میں اب یہاں سے تعلیم حاصل کروں گی۔‘
فرسٹ ایئر کی طالبہ عالیہ نے بتایا: ’میں نے سائنس سبجیکٹ میں داخلہ لیا ہے جبکہ میرے ماں باپ کی خواہش ہے کہ میں مدرسے جاؤں اور میرا شوق ہے کہ میں اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھوں اس لیے میں نے سیکنڈ شفٹ میں داخلہ لیا۔ صبح میں مدرسے جاتی ہوں اور دوپہر کو میں یہاں سکول آجاتی ہوں اور اب میرا تعلیم کا شوق پورا ہو جائے گا۔‘
ضلع چارسدہ کی فی میل ایجوکیشن آفیسر ثریا بیگم نے انڈپینڈنٹ اردوکو بتایا: ’ایک سروے کے مطابق بچوں کے سکول سے ڈراپ آوٹ ہونے کی شرح بہت زیادہ تھی اور بچے پرائمری کے بعد چھٹی کلاس میں، مڈل کے بعد نویں کلاس میں اور اسی طرح میٹرک کے بعد گیارویں کلاس میں داخلہ لینے سے رہ جاتے تھے کیونکہ بچیوں کو اکثر دور سکولز یا کالجز جانے کی اجازت نہیں ہوتی یا غربت کا مسئلہ ہوتا ہے۔‘
ان کے مطابق ڈراپ آوٹ بچوں کی شرح کو کم کرنے کے لیے حکومت نے سیکنڈ شفٹ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور سیکنڈ شفٹ کے لیے چارسدہ میں 34 سکولز کا انتخاب کیا گیا ہے جس کا باقاعدہ افتتاح یکم نومبر سے ہوچکا ہے۔
خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایجوکیشن اینالسٹ عمیر اورکزئی نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ محکمہ تعلیم کے حالیہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پانچ سے 16 برس کی عمر کے 37 لاکھ بچے سکولز سے باہر ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قبائلی اضلاع میں 74 فیصد لڑکیاں سکولز سے باہر ہیں جبکہ ورلڈر پورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں 78 فیصد بچیاں پرائمری سکول کے بعد سکولز سے ڈراپ آوٹ ہوجاتی ہیں جس کی بڑی وجہ غربت ہے۔
خیبرپختونخوا کے محکمہ ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیش کے پبلک رلیشن آفیسر افراسیاب کے مطابق صوبے کے 16 اضلاع میں ستمبر کے مہینے سے سیکنڈ شفٹ کلاسز کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کے فیز ون میں 120 سکولز میں تین ہزار طلبہ نے داخلہ لیا ہے۔
اس میں 44 لڑکیوں کے سکولز شامل ہیں جس میں 28 پرائمری اور16مڈل اور ہائی سکولز چنے گئے ہیں جبکہ فیز ٹو میں مزید 230 سکولز شامل کیے جائیں گے۔
پی آر او نے مزید بتایا کہ محکمہ تعلیم کا سیکنڈ شفٹ کے لیے ایک ہزار سکولز کا ہدف ہے تاکہ وہ بچے جن کا گھر سکول سے دور ہے یا سکولوں میں داخلے کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے داخلوں سے رہ گئے تھے ان تمام بچوں کو سکولز میں داخلہ مل سکے۔