وفاقی وزیر برائے اطلاعات فواد چوہدری نے اعتراف کیا ہے کہ حکومت اور ریاست دونوں ہی ملک میں انتہا پسندی کے خلاف لڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور پاکستان کو بھارت سے کم اور ملک میں انتہا پسندی سے خطرہ زیادہ لاحق ہے۔
’ابھی ہم نے تحریک لبیک پاکستان کے معاملے میں دیکھا ہے کہ کس طرح ریاست کو پیچھے ہٹنا پڑا ہے اور یہ اس بم شیل کی نشاندہی کر رہا ہے جو ٹک ٹک کر رہا ہے۔‘
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انتہا پسندی کی وجہ مدارس ہرگز نہیں بلکہ سکولز اور کالجز ہیں جہاں پر باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت 80 اور 90 کی دہائی میں ایسے اساتذہ بھرتی کیے گئے ہیں جو انتہا پسندی کی تعلیم دے رہے ہیں۔
فواد چوہدری کے مطابق: ’اگر آپ ایسا معاشرہ تشکیل دیں گے جہاں دوسرے کا نقطۂ نظر پہلی فرصت میں کفر قرار دے دیا جائے اور اسے جہنم کی بشارت دے دی جائے تو دوسرا نقطۂ نظر کیسے معاشرے کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔‘
’اگرآپ لوگوں کی زندگیوں کو بچا نہیں پائیں گے تو سافٹ چینج کیسے آئے گا۔ حکومتی رٹ ختم ہو گئی تو انتہا پسند خود بخود حاوی ہو جائیں گے۔‘
وفاقی وزیر نے یہ کوئی نئی بات نہیں کی ہے۔ بلکہ حیرت تو اس بات پر ہو رہی ہے کہ وفاقی وزیر نے وہ بات دہرائی ہے جو کم از کم ایک دہائی سے کہی جا رہی ہے اور اب تو وقت ہے کہ انتہا پسندی کو کس طرح شکست دی جائے اس بارے میں اٹھائے گئے اقدامات اور ان کی کامیابی پر بات کرتے۔
پاکستان میں شدت پسندی عمومی طور پر امریکہ میں نائن الیون کے حملوں سے منسلک کی جاتی ہے لیکن اس کی بنیاد تو 70 اور 80 کی دہائی ہی میں ڈال دی گئی تھی جب ریاست نے اسلامائزیشن کی حمایت کی۔ مدارس کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا اور سرکاری سکولوں کے نصاب کو تبدیل کیا گیا۔
مصنف ڈیویڈ کومنز کی 2009 میں چھپنے والی ایک کتاب کے مطابق 1971 میں پاکستان میں نو سو مدارس موجود تھے، تاہم 1988 میں جنرل ضیا کا دورِ حکومت ختم ہونے تک یہ تعداد بڑھ کر آٹھ ہزار رجسٹرڈ اور 25 ہزار غیر رجسٹرڈ مدارس تک پہنچ گئی۔
2010 میں برکنگز انسٹی ٹیوٹ کے رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں انتہا پسندی کے حوالے سے صورتحال مدارس سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔ اور اب یہ مسئلہ سرکاری سکولوں تک پہنچ چکا ہے۔
2005 سے شروع ہونے والے خودکش حملوں کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں خودکش بمباروں کی عمریں 14 سے 18 سال کے درمیان تھیں اور وہ مدارس کے تعلیم یافتہ نہیں تھے بلکہ وہ بچے تھے جنہوں نے پڑھائی چھوڑ دی تھی۔
2009 میں امریکی سیاسی تجزیہ کرسچن فیئر نے 141 شدت پسندوں کے خاندانوں کا انٹرویو کیا اور کہا کہ ان 141 شدت پسندوں میں سے 19 مدارس سے بھرتی کیے گئے تھے جبکہ 19 ہی شدت پسند سرکاری سکولوں سے۔
ضیا الحق کے بوئے ہوئے بیج اب بڑے درخت بن چکے ہیں جو پھلدار نہیں بلکہ کانٹوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
رواں سال جنوری میں کراچی کی انجینیئرنگ یونیورسٹی کے ایک طالب علم عمر بن خالد کو محکمہ انسداد دہشت گردی نے داعش کی مالی معاونت کے الزام میں گرفتار کیا۔ ان کے شدت پسند تنظیم کے ساتھ روابط تھے اور وہ رقم شام بھجوا رہے تھے۔ وہ حیدر آباد میں اپنے ساتھی کو رقم بھیجتے تھے جو بٹ کوائن کے ذریعے شام منتقل کرتا تھا۔
اس سے قبل ملک کے بہترین تعلیمی ادارے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے فارغ التحصیل ہونے والے سعد عزیز کو 2016 میں فوجی عدالت نے سزائے موت دی۔ حکام کا کہنا تھا وہ 2015 میں کراچی میں 48 اسماعیلیوں اور انسانی حقوق کی سماجی کارکن سبین محمود کے قتل میں ملوث تھے۔
پھر جامشورو میں واقعے لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کی طلبہ نورین لغاری کا واقعہ ہوا۔ وہ داعش میں خودکش بمبار کے طور پر شامل ہوئیں اور ان کا ہدف ایسٹر کے دن لاہور میں چرچ پر حملہ کرنا تھا۔ لیکن ان کو حملہ کرنے سے چند روز قبل ہی گرفتار کر لیا گیا۔
2017 میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ شدت پسند تنظیمیں اب کم تعلیم یافتہ نوجوانوں کی جانب توجہ مرکوز کیے ہوئے نہیں ہیں بلکہ وہ ملک کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں کو ٹارگٹ کر رہی ہیں تاکہ وہاں سے نوجوانوں کو بھرتی کیا جا سکے۔
وفاقی وزیر نے جب کہا کہ ’انتہا پسندی کا بیانیہ سوسائٹی کو خود ٹھیک کرنا ہو گا‘ تو انہوں نے الٹا یہ کہہ دیا کہ ’ساڈے اتے نہ رہنا۔‘
شدت پسندی کے خلاف بیانیے اور اس کے خاتمے کے لیے مربوط پالیسیوں کی ضرورت ہے جن میں حکمت عملی اور عملی اقدامات، انسداد دہشت گردی کے قوانین کے حوالے سے شفافیت اور قومی اتفاق رائے شامل ہوں۔
ملک کی پہلی قومی داخلی سکیورٹی پالیسی 18-2014 میں تجویز دی گئی کہ شدت پسندی، فرقہ واریت، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ایک قوی قومی بیانیہ مرتب کیا جائے۔ اس کے بعد قومی داخلی سکیورٹی پالیسی 23-2018 پیش کی گئی جو گذشتہ پالیسی کی بہتر کاپی ہے۔
معاشرہ تو شروع دن سے انتہا پسندی اور شدت پسندی کے خلاف ریاست کے ساتھ کھڑا ہے۔ لیکن پالیسیاں برائے پالیسی کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان پالیسیوں کا اطلاق حکومت کی ذمہ داری ہے اور ان کا فائدہ ہی کیا اگر ان پر عملدرامد نہیں ہونا۔
انتہا پسندی کا بیانیہ معاشرے کے اعتدال پسند لوگ ہی تبدیل کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں تو بیانیہ بدلنے کی کوشش کرنے، انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھانے کے پر کاٹ دیے جاتے ہیں۔
چاہے وہ اساتذہ ہوں، طلبہ ہوں، عام افراد ہوں یا جج ہوں۔ ملک میں بحث و مباحثے کی گھٹن والی فضا ہے جہاں صرف مخصوص نظریہ رکھنے والوں کو کھل کر بولنے اور کھل کر حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔