کرونا وبا کے تقریباً دو سال بعد اس وائرس کی نئی قسم اومیکرون پر قابو کے لیے جمعے کو پوری دنیا میں نئی دوڑ کا آغاز ہو گیا۔
اومیکرون وائرس کو پچھلی اقسام سے زیادہ مہلک تصور کیا جا رہا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے نئے وائرس کو’اومیکرون‘ کا نام دیا ہے اور اسے تشویش کے اعتبار سے انتہائی تیزی سے پھیلنے والے وائرس کی اس کیٹگری میں رکھا ہے جس میں ڈیلٹا ویرینٹ شامل ہے۔
ڈیلٹا ویرینٹ کے یورپ اور امریکہ کے کچھ حصوں میں بڑی تعداد میں مریض موجود ہیں اور اموات جاری ہیں۔
جنوبی افریقہ میں وائرس کی نئی دریافت ہونے کے بعد امریکہ، کینیڈا اور روس سمیت متعدد ملک متاثرہ علاقے سے لوگوں کی آمد یا وہاں کے سفر پر پابندی لگانے میں یورپی یونین کے ساتھ مل گئے ہیں۔
امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ’یہ (نیا وائرس) تیزی سے پھیلنے والا لگتا ہے۔‘ یہ بات انہوں نے لاکھوں امریکی خاندانوں کے لیے یوم تشکر کی تقریبات کی بحالی کے ایک دن بعد کہی ہے۔
صحافیوں سے بات چیت میں نئی سفری پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے جوبائیڈن نے کہا: ’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم احتیاط سے کام لیں گے۔‘
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اومیکرون کے حقیقی خطرات ابھی تک نہیں سمجھے گئے لیکن ابتدائی شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ وائرس کے تیزی سے پھیلنے والی اقسام کے مقابلے میں اس کا دوبارہ مرض میں مبتلا کر دینے کا خطرہ زیادہ ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ وہ لوگ جو کووڈ 19 میں مبتلا ہونے کے بعد صحت یاب ہو گئے ہیں وائرس کی اس نئی قسم کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ جاننے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں کہ موجودہ ویکسینز اس کے خلاف کم مؤثر ہیں۔
طبی ماہرین نے، جن میں ڈبلیو ایچ او بھی شامل ہے، خبردار کیا ہے کہ نئے وائرس پر جامع تحقیق سے قبل ضرورت سے زیادہ ردعمل کا اظہار نہ کیا جائے لیکن عالمی سطح پر 50 لاکھ سے زیادہ افراد کی موت کا سبب بننے والی وائرس کی وبا کے پیش نظر پریشان حال دنیا خوف میں مبتلا ہے۔
برطانوی وزیر صحت ساجدجاوید نے قانون سازوں کو بتایا: ’ہمیں تیزی سے اور جس قدر ہو سکے جلد حرکت میں آنا ہوگا۔‘
دوسری جانب جنوبی افریقہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ فوری طور پر ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ وائرس کی نئی قسم زیادہ شدید مرض کا سبب بنتی ہے۔
وائرس کی دوسری اقسام کی نئے وائرس میں مبتلا ہونے والے بعض افراد میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔
جرمن وزیر صحت جینزسپاہن کا کہنا تھا کہ’جو آخری کام ہمیں کرنے کی ضرورت ہے وہ نئے ویرینٹ پر قابو پانا ہے۔‘27
رکنی یورپی یونین کے ملکوں میں حال ہی میں متاثرین کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے۔
یورپی یونین کی صدر ارسلاوان ڈر لیین نے کہا کہ’جب تک ہم اس نئے وائرس کے خطرے کو واضح تو پر نہیں سمجھ لیتے تب تک پروازیں معطل رہیں گی اور اس علاقے (جنوبی افریقہ) سے واپس آنے والے مسافروں کو قرنطینہ کے اپنے سخت قواعد کی پابندی کرنی چاہیے۔‘
بیلجیم کے وزیر صحت فرینک وینڈنبروک کے بقول: ’یہ مشکوک وائرس ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ آیا یہ بہت خطرناک ویرینٹ ہے۔‘
بیلجیم پہلا ملک ہے جس نے وائرس کی نئی قسم کے پہلے مریض کا اعلان کیا۔ امریکی حکومت میں وبائی امراض کے چوٹی کے ماہر ڈاکٹر اینتھنی فاؤچی کا کہنا تھا کہ ابھی اومیکرون کی امریکہ میں موجودگی شناخت کرنا باقی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ یہ وائرس کی دوسری اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلنے والا اور ویکسینز کے خلاف مزاحمت رکھتا ہو۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این سے گفتگو میں ڈاکٹر فاؤچی نے کہا: ’ابھی یقین کے ساتھ کچھ نہیں جانتے۔‘
اسرائیل نےن جو ان ملکوں میں سے ایک ہے جہاں سب سے زیادہ لوگوں کو ویکسین لگائی جا چکی ہے، جمعے کو نئے ویرینٹ سے متاثرہ کیس کا اعلان کیا ہے۔
متاثرہ شخص ملاوی سے اسرائیل پہنچے۔ وہ اور دوسرے مشتبہ کیسز آئسولیشن میں رکھے گئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیل کا کہنا تھا کہ تینوں لوگوں کو ویکسین لگ چکی تھی لیکن حکام اس حوالے سے تصدیق کر رہے ہیں۔
ڈچ فضائی کمپنی کے ایل ایم کی پرواز کے ذریعے کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ سے 10 گھنٹے کے سفر کے بعد ایمسٹرڈیم کے سکیپول ہوائی اڈے پر اترنے کے بعد 598 مسافروں کو جمعے کی صبح چار گھنٹے کے خصوصی ٹیسٹ کے لیے رن وے پر روک لیا گیا۔
جوہانسبرگ سے آنے والے مسافروں کو بھی آئسولیشن میں رکھ کر ٹیسٹ کیے گئے۔
برطانیہ نے بھی جنوبی افریقہ اور علاقے کے پانچ دوسرے ملکوں پر سفری پابندی لگاتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ان ملکوں سے حال میں ہی برطانیہ آنے والے کرونا وائرس کا ٹیسٹ کروائیں۔
کینیڈا بھی گذشتہ دو ہفتے کے دوران جنوبی افریقہ کا سفر کرنے والوں کے ملک میں داخلے پر پابندی لگا چکا ہے۔
جاپانی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ایسواتینی، زمبابوے، نمیبیا، بوٹسوانا، جنوبی افریقہ اور لیسوتھو سے آنے والے جاپانی شہریوں کو حکومت کی جانب سے مخصوص گئے مقامات پر 10 دن کے لیے آئسولیشن میں رکھ کر کووڈ 19 کے تین ٹیسٹ کیے جائیں گے۔ روس نے بھی سفری پابندی عائد کر دی ہے۔