سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کہا ہے کہ انہیں یاد ہی نہیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے حوالے سے بیان حلفی میں کیا لکھا تھا۔
عدالت کے ازخود نوٹس کی منگل کو سماعت کے دوران سابق جج رانا شمیم نے کہا کہ بیان حلفی بند لاکر میں رکھا تھا اور وہ نہیں جانتے کہ میڈیا میں کیسے پہنچا اور جو بیان حلفی رپورٹ ہوا ہے وہ کون سا ہے۔
رانا شمیم نے عدالت میں مزید کہا کہ بیان حلفی سر بمہر تھا اور انہیں نہیں علم کہ وہ میڈیا کو کیسے ملا۔
انہوں نے کہا: ’میں نے تو ابھی یہ بھی نہیں دیکھا کہ میڈیا پر کیا شائع ہوا ہے۔‘
ان کے بقول انہوں نے بیان حلفی لکھ کر پوتے کو دیا تھا کہ لاکر میں رکھے۔ ’بیان حلفی لاکر میں تھا، پتہ نہیں کیسے باہر نکلا۔‘
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے کہ یہ بیان حلفی 10 سال پرانا نہیں بلکہ رواں ماہ 10 نومبر کی تاریخ کا ہے اور رانا شمیم کو یاد بھی نہیں کہ بیان حلفی میں کیا لکھا ہے؟
انہوں نے عدالت میں کہا: ’اگر یہ انہوں نے نہیں لکھا تو کس نے لکھا؟‘
اٹارنی جنرل نے سوال اٹھایا کہ رانا شمیم کو تین سال پہلے کی باتیں یاد ہیں لیکن تین ہفتے پہلے دیے گئے بیان حلفی کے بارے میں یاد نہیں کہ اس میں کیا تھا؟
انہوں نے مزید کہا کہ رانا شمیم کے بھائی کا انتقال ہوتا ہے اور رانا شمیم اس کے باوجود دو دن کے لیے لندن جاتے ہیں اور بیان حلفی دیتے ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے رانا شمیم سے کہا کہ اس عدالت نے چار عدالتی معاون متعین کیے ہیں۔ آپ نے جو بیان حلفی دیا یقیناًا س کا کوئی مقصد ہو گا صرف اخبار کے لیے تو آپ نے بیان حلفی نہیں دیا ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آپ بتائیں گے اب تین سال بعد آپ کو کیوں محسوس ہوا کہ ایسا بیان دینا چاہیے؟ اس کا مقصد کیا تھا کیونکہ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ ’عوام کا عدالتوں پر اعتماد مجروع ہوا ہے آپ کو ثابت کرنا ہو گا کہ آپ نےایسا بیان حلفی کیوں دیا؟‘
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آزادی اظہار رائے کے ساتھ کچھ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔
انہوں نے سابق جج رانا شمیم سے تحریری جواب کے بارے میں سوال کیا، جس پر رانا شمیم نے جواب دیا کہ ان کے بھائی کا انتقال ہوگیا ہے اور وہ تحریری جواب جمع نہیں کروا سکے، تو انہوں نے دو ہفتے کا وقت مانگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم صرف آپ کو تین دن دے سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ خبر چھاپنے والے اخبار نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے بیان حلفی کی آپ سے تصدیق کی تھی، اس کے جواب میں رانا شمیم نے کہا کہ میرا بیان حلفی سیل تھا، انہوں نے شائع کرنے کے بعد مجھ سے پوچھا۔
رانا شمیم نے درخواست کی کہ سماعت پانچ دسمبر کے بعد رکھ لیں یا 12 دسمبر کے بعد وقت دے دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ تحریری جواب میں تمام سوالوں کے جواب دے دیں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا جنگ گروپ نے تحریری جواب جمع کروا دیئے؟ انہوں نے کہا کہ جو جواب جمع ہوئے ہیں وہ عدالتی معاون کو مہیا کر دیں۔ آپ جج کو کچھ بھی کہہ دیں وہ توہین عدالت نہیں ہو گی۔لیکن جہاں عدالتی معاملات پہ اثر انداز کی بات ہو گی پھر توہین عدالت سمجھا جائے گا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ میں توہین عدالت پر یقین نہیں رکھتا، ججوں کو اس سے بہت اونچا ہونا چاہیے، لیکن رانا صاحب کا آج کا جو بیان ہے وہ زیادہ خطرناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی بیانیے کے لیے عدالت کو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ عدالت کی ساکھ کو متاثر کرنے کا موسم چل رہا ہے۔ اس پہ چیف جسٹس نے کہا کہ عجیب بات ہے کہ یہ سارا موسم عدالت کے باہر ہی چل رہا ہے لیکن کم از کم اس ہائی کورٹ کو سیاست زدہ نہ کریں۔
رانا شمیم نے عدالت کو بتایا کہ بیان حلفی میرے پاس نہیں ہے لندن میں ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ پاکستانی سفارت خانہ لندن سے بیان حلفی لے کر پاکستان بھجوا سکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ اخبار کا کردار اب ثانوی ہو گیا ہے، اصل کارروائی اب رانا شمیم کے خلاف ہونی چاہیے۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رانا شمیم کا اگر اصل بیان حلفی ایسا موجود ہی نہیں تو پھر جنگ اخبار پر بھاری ذمہ داری آئے گی۔
عدالت نے رانا شمیم کو شوکاز نوٹس کا جواب دینے کے لیے سات دسمبر تک کی مہلت دیتے ہوئے انہیں آئندہ سماعت پر اصل بیان حلفی سمیت پیش ہونے کی ہدایت کر دی۔ عدالت نے انصار عباسی، میر شکیل الرحمان کے جوابات کی نقول عدالتی معاونین کو فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس جب کمرہ عدالت میں تشریف لائے تو رش کو دیکھ کر کہا کہ سب بیٹھ جائیں، صرف متعلقہ افراد روسٹرم پہ آ جائیں۔ عدالتی معاون ، صحافیوں کی نمائندہ تنظیم کو روسٹرم پہ آنے کو کہا۔
انہوں نے کہا کہ پہلے میں یہ واضح کر دوں کہ عدالت آزادی اظہار رائے پہ یقین رکھتی ہے اور اس حوالے سے پہلے فیصلہ بھی دے چکی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ توہین عدالت کے معاملے پہ فردوس عاشق اعوان کیس میں عدالت فیصلہ دے چکی ہے۔
سماعت ختم ہونے کے بعد بھی رانا شمیم کمرہ عدالت سے باہر نہیں نکلے۔ وہ انتظار کرتے رہے کہ میڈیا جائے تو وہ بار نکلیں۔ سماعت ختم ہونے کے آدھے گھنٹے بعد جب وہ کمرہ عدالت سے نکلے تو صحافیوں سے کہا کہ ’کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا مجھے تنگ نہ کریں۔‘
عدالت میں دا نیوز کے ایڈیٹر ان چیف کا شوکاز نوٹس پر تحریری جواب جمع کروا دیا۔ تحریری جواب میں لکھا کہ قانون پسند شہری ہوں۔ میڈیا گروپ نے ہمیشہ آئین اور قانون کی حکمرانی کے لیےجدوجہد کی۔ اس وجہ سےجنگ گروپ کو مختلف حکومتوں کے عتاب کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کے جواب میں لکھا تھا کہ عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے جس کی آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا اور بہت سی مشکلات کا سامنا کیا۔ ایڈیٹر ان چیف جنگ گروپ نے مزید لکھا کہ جہاںتک متعلقہ خبر کی بات ہے، میں اپنے ایڈیٹر کی بات سے متفق ہوں۔ ایڈیٹر عامر غوری نے خبر کی اشاعت سے قبل بتایا کہ وہ مطمئن ہیں کہ فریقین کا موقف معلوم کیا گیا ہے۔ استدعا ہے کہ توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔
جنگ اخبار میں شائع خبر کے مطابق ’گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا ایم شمیم نے اپنے مصدقہ حلف نامے میں کہا ہے کہ وہ اس واقعے کے گواہ تھے جب اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو حکم دیا تھا کہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔‘
کہا گیا کہ سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم نے یہ بیان اوتھ کمشنر کے روبرو 10 نومبر 2021کو دیا ہے۔ اس خبر کے شائع ہونے کے بعد رانا شمیم نے خبر کی میڈیا پہ آ کر تصدیق کی تھی جبکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس خبر کی سختی سے تردید کی۔ خبر شائع ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاملے پر ازخود نوٹس لے کر اخبار اور رانا شمیم کو شو کاز نوٹس جاری کر دیے تھے۔