عید تو بیٹیوں کی ہوتی ہے

دادی کہتی تھیں عید کا مزہ تب آتا ہے جب بیٹیوں کے لیے عید کی تیاری کرنی ہو۔ بیٹوں کا کیا ہے ایک کرتا شلوار لیا، جوتے لیے، کھیل ختم پیسے ہضم۔

تصویر پکسا بے

 

دادی اکثر امی سے کہا کرتی تھیں، بہو، عید کا مزہ تب آتا ہے جب بیٹیوں کے لیے عید کی تیاری کرنی ہو۔ بیٹوں کا کیا ہے، ایک پتلون قمیض لی یا کرتا شلوار لیا، جوتے لیے، کھیل ختم پیسے ہضم۔

مزہ تب آئے گا جب تمہارے بیٹی ہو گی۔ مہندی لگوانی ہے، چوڑیاں لینی ہیں، بُندے ڈھونڈنےہیں، بالوں کے لیے کلپ لینے ہیں، میچنگ کے کپڑے ڈھونڈنے ہیں، دوپٹے رنگوانے ہیں، ہر جوڑے کے ساتھ جوتے لینے ہیں، ایڑھی والے لینے ہیں یا سادہ، کھسے لینے ہیں یا کولہا پوری، بند پمپس لینے ہیں یا سینڈل قسم کے، بھاگتی پھرو گی دوکانوں میں، عید سر پر آ جائے گی اور دیکھنا تیاری ختم نہیں ہو گی۔

جب نام خدا بیٹی بڑی ہو جائے گی تو پارلر کے پھیرے بھی ساتھ شامل کر لو۔ تو بس یاد رکھو کہ عید کا مزہ تب ہے جب لڑکیوں کے لیے عید کی تیاری کرنی ہو۔

ابھی چھوٹی بہن ظل ہما نہیں آئی تھی۔ ظل ہما وہ نام تھا جو پہلی اولاد کے وقت سے دادی نے سوچا ہوا تھا۔ لڑکا ہوا تو حسنین نام رکھ دیا گیا۔

بے تحاشا لاڈ اٹھائے اس کے، گودیوں میں پلا، قدم زمین پر کم ہی رکھنے پڑے اسے، چندا کہا کرتی تھیں دادی اسے پیار سے اور چاند کے جیسا ہی مانتی تھیں۔

دوسری مرتبہ پھر جب امکانات ظاہر ہوئے تو ظل ہما نام پھر یاد آ گیا دادی کو لیکن ظل ہما اس مرتبہ بھی نہ آئی۔

اب کے خاور آ گیا۔ گورا چٹا، باریک نقش و نگار، پیارا سا بچہ، لگتا یہی تھا کہ اللہ میاں کے یہاں ظل ہما کو دھکا دیا اور خود چل پڑا کہ ہم جائیں گے، نقش و نگار وہی نازک سے اٹھا کر لے آیا۔

خاور دادی سے زیادہ اماں، ابا کا لاڈلا تھا۔ ابا سے تو وہ مستیاں کرتا تھا جو آج بھی کوئی دیکھے تو حیران ہو جائے کہ یہ باپ بیٹے ہیں یا دو چھوٹے لڑکے۔

تو ان دو لڑکوں کے لیے عید سے پہلے جب بھی شاپنگ کی جاتی، دادی وہی بات کرتیں کہ بہو، عید کا مزہ تب آتا ہے جب بیٹیوں کے لیے خریداری کرنی ہو۔ بہو دیکھتی ہو گی اور سوچتی ہو گی کہ عید کے مزے بس اتنے ہی کافی ہیں، دو مشٹنڈے پل جائیں خیر سے اور کیا چاہیے۔

پھر خاور (چھوٹے بھائی) کے کافی عرصے بعد ظل ہما (چھوٹی بہن) آ ہی گئی۔ دادی لاکھ ارمان ہونے کے ظل ہما کو نہ دیکھ سکیں۔

دس بارہ روز کا فرق تھا ان کے جانے اور ہما کے آنے میں۔ ہما کیا آئی کھلونا آ گیا، دونوں بھائی اٹھائے اٹھائے پھرتے، تھوڑی بڑی ہوئی تو اس کی مزے مزے کی باتیں سنتے اور بڑی ہوئی تو سکول جانے سے پہلے روزانہ روتی تھی۔

ایسی منحوس آواز میں روتی کہ حسنین کو غصہ آ جاتا۔ وہ صبح اٹھتے ہی امی سے لڑ پڑتا ’کیا مصیبت ہے، روز اسی منحوس آواز سے آنکھ کھلتی ہے، امی یہ اتنا زیادہ کیوں روتی ہے؟‘

لیکن بڑے مزے کا وقت تھا۔ ہما سے خوب کھیلتے دونوں بھائی، ابا اماں کا وقت بھی مزے سے گزرتا (ویسے یہ وہی بتا سکتے ہیں کہ کتنے مزے تھے!)

پھر آخرکار وہ عیدیں بھی آئیں جن کا دادی کہا کرتی تھیں۔ لو بھئی اب ہما کے لیے پونی لینے جانا ہے، اس کی چوڑیاں علی بھائی لے کر آ رہے ہیں۔ مہندی لگانے والی خاتون آ کر بیٹھی ہوئی ہیں اور ہما صاحبہ دونوں ہاتھوں پر مہندی لگوا رہی ہیں۔

امی جو فراک لے کر آئی تھیں اس کی فٹنگ ٹھیک نہیں تھی، آج دوبارہ جائیں گی، فراک ایک سائز بڑا لینا ہے اور لیگنگ بھی لینی ہے ساتھ میں۔

عید کے دوسرے دن کے لیے جو شلوار قمیض سلوایا تھا اس کی لیس بھی لینی ہے، اسی بیچ یاد آتا کہ میچنگ جیولری بھی چاہیے، پھر سے بھاگا دوڑی ہوتی، تو کل ملا کر سب کو تب سمجھ آیا کہ دادی ٹھیک کہتی تھیں، عید کا مزہ بیٹیوں کے ساتھ آتا ہے۔

ہما آئی تو اس کے بعد گھر میں گاڑی بھی آئی، پہلے ویسپا شریف ہوتا تھا اکیلا، اب ساتھ میں ایک ایف ایکس سوزوکی آ گئی۔

اب سارے اس میں بیٹھ کر اکٹھے عید شاپنگ کے لیے جایا کرتے، پھر کچھ برس بعد مکان بھی بدل لیا، یہ علاقہ پہلے والے سے نسبتاً زیادہ ماڈرن تھا۔ پھر حسنین کی نوکری شروع ہوئی تو اس کے لیے موٹر سائیکل لی گئی، پھر ایک سیکنڈ ہینڈ موٹرسائیکل خاور کے لیے خریدی گئی اور زندگی کی گاڑی دوڑتی رہی۔

بیچ کے انیس بیس برس فاسٹ فارورڈ کر کے نکال دیجیے۔ آج ماشاللہ حسنین ایک عدد بیٹی (آئلہ) کے بابا ہیں اور خاور کے ایک بیٹا ہے۔ تیاریوں میں وہی فرق ہے جو دادی بتایا کرتی تھیں۔ بلکہ یوں سمجھیے چار ہاتھ آگے کا ہی معاملہ ہے۔

کچھ عرصہ پہلے کراچی جانا ہوا تو آئلہ کی نانی جان نے کون مہندی کے چار پیکٹ پکڑا دیے کہ بھئی اس کا فون آیا تھا، کہہ رہی تھی کہ یہاں کی مہندی کا رنگ اچھا نہیں ہوتا آپ فلاں بازار میں ملنے والی فلاں مہندی بھیج دیجیے۔

چلیے جی مہندی آ گئی (زندگی میں کبھی نہیں سوچا تھا کہ مہندی بھی سامان میں رکھ کے جہاز پہ لانی پڑے گی، لاحول ولا قوة)۔

پھر آئلہ کے لیے جو کپڑے لینے تھے وہ لیے گئے، جو سلنے دیے تھے ان کی واپسی کے لیے بھاگ دوڑ شروع ہوئی۔

عید پر ملتان آنا تھا، جس صبح آنا تھا اس سے پہلے والی رات کو وہ کپڑے جہانگیر بھائی نے لا کر دیے، یاروں کا تراہ نکلا ہوا تھا کہ اگر کپڑے نہ آئے تو پھر کیا ہو گا، بلکہ کیسے ہو گا۔

کپڑے آ گئے اب جوتے ملتان سے لینے ہیں، آئلہ سمیت گھر کی ساری خواتین نے مہندی لگوانے بھی جانا ہے، اس کے بعد تیاری میں جو کمی رہتی ہو گی اس کے لیے بھی بازار کے پھیرے لگنے ہیں۔

یاد آیا، ابھی چوڑیوں کا تو نام بھی کسی نے نہیں لیا، بہتر ہے کہ پارلر والے پھیرے میں یاد کروا دیا جائے کہ بی بی صاحبو چوڑیاں بھی خرید فرما لو۔

کل ملا کے ایسے بھاگا دوڑی مچی کہ فقیر تو رات جا کے دوست کے ساتھ ایک سنسان ہوٹل میں چائے نوشی پہ لگ گیا کہ اب خود سے نمٹا لو جو رہ گیا ہے، اپنی بس ہے۔ 

عید واقعی بیٹیوں کی ہوتی ہے۔ دادی کی بات بالکل ٹھیک تھی۔ خدا ہمیشہ خوش رکھے، آئلہ زینب عید کے دن سب سے پہلے صبح تیار ہوتی ہے، بال بنائے جاتے ہیں، ہیل والے جوتے پہنے جاتے ہیں، دادی دشمن زیر کا کلمہ پڑھتی ہیں، پھر لائٹ سا میک اپ ہوتا ہے، پھر ٹک ٹک کرتی سارے گھرمیں گھومتی پھرتی ہے، جب تھکن ہوتی ہے تو انسٹا پہ یا فیس بک کھولا جاتا ہے، پھر شام تک کچھ اور پہنا جاتا ہے، اس چیز کا دھیان رکھا جاتا ہے کہ اگر صبح مشرقی لباس ہے تو شام میں کچھ پینٹ شرٹ ٹائپ ہو گا، جیولری بھی بار باد بدلی جاتی ہے، بال کبھی سیدھے ہوتے ہیں، کبھی کرل ڈالے جاتے ہیں، ایک تماشہ ہوتا ہے۔

دادا اور بابا سارا دن کرتہ اتار کر بنیان میں سوتے رہتے ہیں، کوئی مہمان آ گیا تو کرتہ پہن لیں گے، ورنہ مردوں کی عید تو بھئی یہی ہوتی ہے!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ