عام تاثر یہ ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں عوام کو سڑکوں پر لانے میں ناکام ہو چکی ہیں، تاہم حال ہی میں پشاور کے پتنگ چوک میں پیپلز پارٹی کی جانب سے منعقدہ اجتماع کا ایک جائزہ لینے کے بعد لگتا ہے کہ عوام کا اب سیاسی نظام سے اعتبار اٹھ چکا ہے۔
کچھ عرصہ قبل امریکی صحافی جیمز سرویکی کی تصنیف The Wisdom of Crowd پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ کتاب میڈیا اور سیاست سے وابستہ یا دلچسپی رکھنے والوں کو ضرور پڑھنی چاہیے۔ مصنف نے سائنسی تجربات سے ثابت کیا ہے کہ ’آوازِ خلق کو نقارہ خدا‘ سمجھا جائے۔
میڈیا نے پیپلز پارٹی کے اس اجتماع کو کیسے دیکھا وہ ایک علیحدہ بحث ہے اور ظاہری بات ہے تمام رپورٹرز اور ادارے اپنے اپنے اندازے لگا رہے ہوں گے۔ ہمارا اندازہ بھی بالی وڈ ٹریڈ کی طرح فرسٹ ڈے فرسٹ شو باکس آفس یعنی ’کتنے آدمی تھے‘ کے گرد ہی گھومتا ہے۔ جو یقیناً ہجوم کی بنیاد ہوتی ہے کہ کون سی پارٹی کتنا ہجوم سڑک پر لانے اور اکھٹا کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔
لیکن ہمیں کچھ اور پیراؤں سے بھی اجتماعات کو دیکھنا چاہیے۔ پنڈال کے اندر گھوم پھر کر پنڈال کی سوچ، جذبات اور ردعمل پر نظر رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس کو پنڈال کی نبض جانچنا کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح پنڈال کے پس منظر، عمر اور صنف کو بھی دیکھنا چاہیے۔ سب سے آخر میں سٹیج سے فراہم کیے جانے والے موضوعات اور عوام کے ساتھ اس کے جڑنے کے پیمانے سے دیکھنا چاہیے کہ قیادت کس حد تک عوام کی نبض سے واقف ہے۔
ہماری نظر گزرتے وقت کے ساتھ محدود ہوتی جا رہی ہے۔ ہم صرف حاضری اور سٹیج کی تقریروں تک محدود ہوگئے ہیں۔ اس بار کسی کی نظر اس بات پر نہیں پڑی کہ شاید کئی دہائیوں بعد پیپلز پارٹی کی خواتین اچھی خاصی تعداد میں نظر آئیں۔ اس بار اس جلسے کی تیاری کے لیے پارٹی کی خواتین کارکنان نے باقاعدہ مہم چلائی۔ شاید ماضی میں بھی ایسا ہوا ہو لیکن وہ الیکشن کے دوران زیادہ نظر آتی تھیں لیکن ایک سیاسی اجتماع کے لیے ڈور ٹو ڈور اور سوشل میڈیا پر مہم اس بار میں نے محسوس کی۔
میری نظر میں یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ دراصل ہم نے معاشرے کو ان پڑھ اور ماڈرن خواتین میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ہم خواتین کی اخلاقی آزادی مطلب جینز پہننے، پارٹیوں میں حاضریاں لگانے کو جدت سمجھتے ہیں۔ میری نظر میں آج بھی خواتین کو سیاسی شعور کی آزادی سے دور رکھا جاتا ہے۔ ہجوم میں کچھ خواتین سے بات ہوئی تو مسکرا کر بولیں ’ایک بےنظیر ہی تو ہے کہ جس کے نام پر آج بھی ماہانہ ہزاروں روپے ملتے ہیں۔‘
سوچنے لگا موجودہ حالات میں یہ کتنی اہم بات ہے۔ اگر اس ایک جملہ پر گھر گھر خواتین کی مہم چلائی جائے تو خیبر پختونخوا میں جہاں سیاسی پنڈت سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کب کی مر چکی ہے صرف خواتین ووٹرز کی بنیاد پر یہ پارٹی شاید پانسہ پلٹ سکتی ہے۔
اس وقت بےنظیر بھٹو کی بھی یاد آئی۔ ان سے آخری ملاقات پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد کے ہمراہ پشاور میں ہی دسمبر کی ایک سرد صبح کو ہوئی تھی۔ اس کے بعد ان کی موت کی خبر ہی ملی۔ پشاور کے اجتماع میں سینیٹر روبینہ خالد اور ان کی ٹیم نے یقینی طور پر اتنی بڑی تعداد میں خواتین کو جمع کر کے نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ دیگر جماعتوں کی خواتین کے لیے بھی ایک راستہ فراہم کر دیا ہے۔
ذرا سوچیں پشاور میں جمیعت علمائے اسلام کے مرکز سے کچھ ہی فاصلے پر واقع پنڈال میں ایک ترقی پسند جماعت کی جانب سے خواتین کی ایک سیاسی سرگرمی میں موجودگی میری نظر میں ایک بڑی خبر تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک ایسے وقت میں جب افغانستان میں ایک نیا نظام تشکیل دیا جا چکا ہے۔ خطے میں ایک نئی سوچ پروان چڑھ رہی ہے اور اس کے اثرات پاکستان کے سرحدی علاقوں خصوصاً خیبرپختونخوا پر پڑنے کے آثار زیادہ ہیں۔ ایسے میں ایک ترقی پسند جماعت اور محترمہ بےنظیر بھٹو کے نام پر خواتین کے اس اجتماع میں شمولیت خود پاکستان کے نظام کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دائیں بازو کی جماعتیں سیاست میں خواتین کی شمولیت کی مخالف ہیں، لیکن دائیں بازو کی جماعتوں کے لیے یہ بات ماننی ضروری ہے کہ اس ملک کے مسائل اور بقا کا حل صرف جمہوری پارلیمانی نظام کی طاقت میں ہے۔ خواتین جمہور کا ایک اہم حصہ ہیں۔
اکیسویں صدی میں ہم اپنی خواتین کو سیاسی سوجھ بوجھ سے دور رکھ کر پاکستان کے ساتھ اچھا نہیں کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اکثر جماعتوں نے خواتین کو ووٹ کے سانچے میں قید کر رکھا ہے۔ پوچھو تو کہتے ہیں خواتین کی مخصوص نشستوں پر دیکھیں، ہم نے خواتین کو اسمبلی تک پہنچا دیا ہے۔ لیکن کتنی ہی جماعتوں کی خواتین سیاسی اجتماعات میں اپنے سیاسی نظریے کا دفاع یا سیاسی نظام پر دلائل کے ساتھ تنقید کرتی نظر آتی ہیں۔
مین سٹریم میڈیا نے تو دینی جماعتوں سے وابستہ خواتین کو بلانا ہی چھوڑ دیا ہے۔ جماعتوں نے خواتین اراکین اسمبلی کی بحث کے دوران کارکردگی کو کب جانچنے کی کوشش کی ہے؟ بڑے خاندانوں کی یہ خواتین بظاہر اجلاس میں حاضری لگانے اور گھر کے ڈرائنگ روم سے نکل کر اسمبلی ہال میں بیٹھنے کی حد تک ہی اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔
گو کہ اس پنڈال میں اپرکلاس کی خواتین یا یوں کہیے ’ماڈرن خواتین‘ نہیں تھیں، اکثریت غریب اور پسماندہ طبقہ سے تھیں لیکن یہی تو ہے اصل پاکستان۔ اس پاکستان کو جسں کے عوام کو ہم ایک ہجوم سمجھتے ہیں اگر طبقاتی نظام کے خلاف لڑنے والی جماعتیں صرف اس ہجوم کے ساتھ جڑ جائیں یقین مانیے کہ اس ہجوم کی عقل، دانش اور فہم اس ملک کے مسائل حل کرنے کے لیے کافی ہے۔