یہ معاشرہ مر چکا ہے۔ اب آئیے اس کے کفن دفن کا انتظام کریں۔
ایک پریانتھا تھا، جلا دیا گیا۔ ارسلان محسود جیسا وجیہہ بچہ چوراہے پر محافظوں کے ہاتھوں گولیوں سے بھون دیا گیا اور اب فیصل آباد میں انسانیت کا لبادہ چاک کر دیا گیا ہے۔ سمجھ نہیں آرہی کس کس کو رویا جائے۔ دم گھٹ رہا ہے۔اپنے ارد گرد سے بو آ رہی ہے۔
دکھوں کی ایک مالا ہے جو ٹوٹ گئی ہے۔اب دانہ دانہ المیے ٹپک رہے ہیں۔کرب کے عنوانات بہت سارے ہیں لیکن مسائل کا گھنٹہ گھر ایک ہی ہے کہ جس ملک میں آئین ایک رسم کی طرح پامال ہو جاتا ہو، اس ملک میں قانون کی حکمرانی کیسے قائم ہو سکتی ہے؟جس’اہتمام‘ سے مزدور ان دنوں نسلہ ٹاور گرا رہے ہیں اسی اہتمام سے ہم اپنے معاشرے کو منہدم کرتے چلے جا رہے ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ اب آئینوں سے بھی خوف آنے لگا ہے۔
آپ پاکستان کا کوئی سا بھی مسئلہ دیکھ لیں، انتظامی ہو، فکری ہو یا سماجی، اس کی جڑیں آپ کو آئین شکنی میں ہی ملیں گی۔ آئین وہ بندوبست ہے جو چیزوں کو ترتیب میں رکھتا ہے۔ جب یہ ترتیب نہیں رہتی تو پورا معاشرہ غیر متوازن ہو جاتا ہے۔ مسلسل آئین شکنی کا آزار صرف اقتدار کی غلام گردشوں کو نہیں، یہ پورے معاشرے کی فکری اور نفسیاتی ساخت کو ادھیڑ دیتا ہے۔ یہ معاشرے کو بتاتا ہے کہ طاقتور کسی ضابطے اور قانون کا پابند نہیں ہوتا۔ یہ معاشرہ اب صرف مذہبی انتہا پسندی کے شکنجے میں نہیں، یہ ہر طرح کی انتہا پسندی کے آسیب میں ہے۔ جس ماحول میں یہ پروان چڑھا ہے وہاں توازن فکر ممکن ہی نہیں۔
پھر بظاہر اسی آئین کے تحت قائم حکومتیں بھی اپنے آئینی وجود سے زیادہ اس بات پر نازاں پائی جاتی ہیں کہ سب ایک پیج پر ہیں۔ پھر قاضی حسین احمد جیسا رہنما بے نظیر بھٹو کی جمہوری اور آئینی حکومت کے خلاف دہائی دیتا ہے کہ فوج اپنا آئینی کردار ادا کرے اور پھر وقت کا وزیر دفاع سیالکوٹ کے دل دہلا دینے واقعے پر مزے سے کہتا ہے کہ بچے اس عمر میں جوش میں آ جاتے ہیں۔
آئین میں طے کردہ اصول قوموں کو فکری تسلسل فراہم کرتے ہیں لیکن جب آئین پامال ہوتا ہے تو معاشرے کو ایک فرد واحد اپنی لاٹھی سے ہانکتا ہے۔ ایک صاحب آ کر حکم سناتے ہیں کہ عزیز ہم وطنو! ساری اسلامی دنیا کے قائد ہم ہیں، سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے اور افغانستان میں جہاد کی میزبانی کے لیے بھی اللہ نے ہمیں چن لیا ہے۔ تھوڑا وقت گزرتا ہے تو ایک دوسرے صاحب آ کر حکم دیتے ہیں عزیز ہم وطنو ! یہ سارے جہان اور درد جگر کو چھوڑو، سب سے پہلے پاکستان ہے اور اب ہم نے روشن خیال ہونا ہے۔
معاشرہ ایک فطری طریقے سے چلتا ہے تو اپنے نتائج فکر سے سیکھتا ہے اور آگے بڑھتا ہے۔ لیکن جب شعور اجتماعی معطل ہو جائے اور فرد واحد ہی اختیار اور عقل کا گھنٹہ گھر بن جائے تو پھر پورا معاشرہ اپنا بانکپن کھونے لگتا ہے۔ فکری اشرافیہ بھی غیر متعلق ہو جاتی ہے۔ایک بارگاہ سے اشارہ ہوتا ہے تو راتوں رات ’اسلامائزیشن‘ ہو جاتی ہے اور جہاد کی تبلیغ و ترویج ہونے لگتی ہے اور دوسری بارگاہ سے حکم ملتا ہے تو ’سیکولرائزیشن‘ کے گن گانا شروع کر دیے جاتے ہیں۔
جب آئین کی بالا دستی نہیں رہتی تو نظام قانون بھی تباہ ہو جاتا ہے۔ پھر قانون اس پر گرفت نہیں کرتا جو کرپٹ ہو بلکہ جس گستاخ پر گرفت کرنا مقصود ہو اس پر قانون نافذ کر دیا جاتا ہے۔ کبھی ہم خیال جنم لیتے ہیں تو کبھی پیٹریاٹس کی نقاب کشائی ہوتی ہے۔ قانون بے چارہ آمر وقت کی صف بندی میں محض ایک آلہ کار بن کر رہ جاتا ہے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سارا نظام تعزیر کٹہرے میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس کا اعتبار جاتا رہتا ہے۔
آئین ملکی وحدت کا ضامن ہوتا ہے اور ہر اکائی کا احترام کرتے ہوئے، شراکت کے احساس کے ساتھ آگے بڑھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ آئین کا محور پوری قوم ہوتی ہے اس لیے وہ معاشرے کی فالٹ لائنز کو بھرتا ہے، لیکن غیر آئینی بندوبست میں مرکز و محور فرد واحد ہوتا ہے اس لیے وہ فالٹ لائنز کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ فالٹ لائن مذہبی بھی ہو سکتی ہیں اور ایم کیو ایم کی طرح لسانی بھی۔ یہ فالٹ لائنز جتنی زیادہ نمایاں ہوتی ہیں ملک کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں لیکن غیر آئینی بندوبست کے لیے یہ لائف لائن کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان سے قومی سیاسی جماعتوں کو حسب ضرورت محدود تر کیا جا سکتا ہے۔
اس سارے عمل میں قانون، ضابطے اور اخلاق جیسی چیزیں غیر اہم ہو جاتی ہیں۔ ہر شعبے میں چن چن کر ایسا بندہ بٹھایا جاتا ہو جسے کردار، قانون، اخلاق سے بھلے کوئی نسبت ہو نہ ہو، بندہ وہ کام کا ہو۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جتنا بڑا منصب ہو، اتنا ہی چھوٹا آدمی اس پر فائز نظر آتا ہے۔ نجیب اور صاحب الرائے اجنبی ہو جاتے ہیں اور تھالی کا بینگن ہی پھلوں کا بادشاہ قرار پاتا ہے۔
آئینی روایات قانون سازی میں ارتقاء کی ضامن ہوتی ہیں۔ یہ روایات نہ رہیں تو قانون سازی کا سارا عمل بلڈوز ہو جاتا ہے اور مسند نشین کی جنبش ابرو ہی قانون قرار پاتی ہے۔ اِ دھر سے دباؤ آیا تو یہ قانون بنا دیا، اُدھر سے دباؤ آیا تو وہ قانون بنا دیا۔ معاشرے کا شعور اجتماعی غیرمتعلق ہو جاتا ہے۔ جتھے شہہ پا کر طاقتور ہو جاتے ہیں اور عوام قانون کو لاچار دیکھ کر بے بسی میں لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ ایک معاشرے کے لیے اس سے بڑا المیہ بھی کوئی ہو سکتا ہے؟
قیام پاکستان سے پہلے انگریز کی حکومت رہی اور اس سے پہلے سکھوں اور مغلوں کا راج۔ راجوں مہاراجوں کے آگے خلق خدا کی حیثیت محض رعایا کی تھی یا محکوم کی۔ قیام پاکستان کے بعد لازم تھا کہ انہیں رعایا سے شہری کا درجہ دیا جاتا لیکن یہاں پہلے عام انتخابات 24 سال بعد جا کر ہوئے اور ان کے نتیجے میں انتقال اقتدار نہیں ہوا، سقوط ڈھاکہ ہو گیا۔اس کے بعد کی کہانی آپ سب کے سامنے ہے۔
آئین کے آرٹیکل 256 میں صاف لکھا ہے کہ کسی پرائیویٹ آرمی کی اجات نہیں ہوگی۔اب یہ حساب آپ خود کر کے دیکھ لیجیے کہ ہمارے ملک میں کتنے لشکر، کتنی حزبیں اور کتنے جیش پائے جاتے تھے؟فرقہ وارانہ فسادات کا میدان جنگ ہم بنے تو کیوں بنے؟ اور ہم نے اپنا معاشرہ کیوں ایندھن بنایا؟جن رہنماؤں نے اپنے بچے امریکہ سے پڑھوا کر لوگوں کے بچے کشمیر اور افغانستان میں قربان کروائے وہ آج بھی معتبر ہیں۔ جنہیں ولن ہونا چاہیے تھا وہ آج بھی ہیرو ہیں۔
جب نظام ریاست میں آئین پامال ہوگا تو سماج میں ہر چیز پامال ہو گی۔ جب آئین پامال ہوتا ہے تو یہ گویا اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ اب دلیل قوت نہیں رہی۔ اب قوت دلیل بن چکی ہے۔جب قوت دلیل بن جائے تو معاشرے جنگل بن جاتے ہیں۔ ہر طاقتور اپنی طاقت کے مطابق جنگل کا بادشاہ بن بیٹھتا ہے۔
یہاں کوئی اصول اور ضابطہ نہیں بلکہ طاقت ہی سکہ رائج الوقت ٹھہری۔ جب اصول طے پا چکا تو اب اس کی شرح آپ کے سامنے ہے۔ سیالکوٹ میں درندگی پر کس رسان سے وزیر دفاع نے فرما دیا کہ بچے تھے، اس عمر میں جذبات میں آ گئے۔ جان کی امان پاؤں تو صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کیا فیصل آباد میں بھی آپ کے بچے جذبات میں آ گئے تھے۔