پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخوا نے اس خبر کی تردید کی ہے کہ صوبائی حکومت نے ڈینگی پھیلانے والے مچھروں کی افزائش نسل روکنے کے لیے سنگاپور کی حکومت سے مدد کی درخواست کی ہے.
رواں ہفتے پاکستان کے ایک موقر انگریزی اخبار ’ڈان‘ میں خبر شائع ہوئی تھی کہ خیبرپختونخوا حکومت نے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ’بائیولوجیکل طریقہ کار‘ سے ڈینگی مچھروں کے خاتمے کے لیے سنگاپور حکومت سے مدد کی درخواست کی ہے کام کیا جائے گا۔
خبر میں سینیٹر نعمان وزیر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت کی بہت جلد اس معاملے پر سنگاپور حکومت سے ملاقات متوقع ہے، جس کے بعد دو طرفہ مشاورت سے اس حوالے سے کام کیا جائے گا۔
تاہم جب اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر نیاز محمد سے بات کی تو انہوں نے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں صوبائی یا وفاقی حکومت کی جانب سے کسی قسم کے احکامات نہیں ملے اور نہ ہی ایسا کوئی منصوبہ تحریری طور پر موجود ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کی اطلاعات کے مطابق خیبر پختونخوا میں ابھی تک ڈینگی پر کام کرنے والی کوئی لیبارٹری نہیں اور نہ تحقیق ہو رہی ہے۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا ڈینگی کنٹرول پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر رحمان محمد آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صوبہ صحت کے معاملات پر وفاق کی اجازت کا محتاج نہیں ہے اور اگر حکومت چاہے تو خود پہل کرکے ڈینگی کے خاتمے میں کردار ادا کرسکتی ہے۔
تاہم انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈینگی کے حوالے سے سنجیدگی نہیں دکھائی جارہی ہے اور پچھلے کئی سالوں سے تمام تر توجہ سپرے اور آگاہی مہم پروگرام پر ہی مرکوز ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’دنیا بھر میں جس جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے، اس حوالے سے پاکستان بہت پیچھے ہے۔ میں نے پی سی ون منظوری کے لیے بھجوا دیا ہے اور نیا بجٹ 220 کروڑ روپے رکھا ہے، جس میں ایک حصہ میں نے تحقیق کے لیے مختص کر رکھا ہے۔‘
ڈاکٹر رحمان نے بتایا کہ ڈینگی کی روک تھام کے لیے وہ مستقبل میں کیا کرسکتے ہیں، اس حوالے سے وثوق سے وہ تب ہی کچھ کہہ سکیں گے جب حکومت بجٹ کی منظوری دے گی۔
دنیا کے بعض دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال ڈینگی کا مرض شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور رواں سال ڈینگی کے دس ہزار پانچ سو کیسز سمیت دس اموات بھی رپورٹ ہوئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈینگی وائرس کے حوالے سے خیبر پختونخوا کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق ہر سال دنیا بھر سے تقریباً 20 کروڑ ڈینگی کے کیسز اور 20 ہزار اموات واقع ہوتی ہیں۔
زمینی حقائق اور بائیولوجیکل طریقہ کار کیا ہے؟
خیبر پختونخوا کے نوجوان سائنسدان جہانگیر خان، چین کی سن یاٹ سین یونیورسٹی سے پی اچ ڈی حاصل کر چکے ہیں جس میں انہوں نے ’پاکستان میں ڈینگی بخار اور ایڈیز مچھر کی روک تھام کے لیے اہم ٹیکنالوجی کے قیام‘ کے موضوع پر مقالہ لکھا۔ وہ پچھلے 13 سال سے خیبر پختونخوا میں مچھر کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں اور ڈینگی پر تحقیق کر رہے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خیبر پختونخوا میں ڈینگی وائرس پھیلانے والے مچھروں کی موجودگی کی وجہ سے ہرسال ڈینگی کا خدشہ موجود رہے گا۔
تاہم ڈاکٹر جہانگیر کا کہنا ہے کہ ڈینگی سے مکمل نجات ممکن ہے کیونکہ دنیا کے ان ممالک میں جہاں لیبارٹری قائم کرکے بائیولوجیکل طریقہ کار سے ڈینگی کے مچھر کی افزائش نسل روکنے کا تجربہ کیا گیا، وہاں سے ڈینگی وائرس کا تقریباً مکمل خاتمہ ہوگیا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’اس طریقہ کار میں ہم زندگی کو زندگی کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ویبیکیا نامی بیکٹیریا کو ہم مچھروں کے انڈوں میں داخل کرکے نئے بننے والے مچھروں کو جب باہر کھلی ہوا میں چھوڑتے ہیں تو وہ باہر کے وائلڈ مچھروں کے ساتھ ملاپ کرکے ان میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ختم کردیتے ہیں۔ اسی کو بائیولوجیکل طریقہ کار کہتے ہیں۔‘
ڈاکٹر جہانگیر نے پانچ سال قبل ایک تحقیقی مقالہ بھی لکھا تھا جو کہ ’بی ایم سی پبلک ہیلتھ‘ جرنل میں شائع ہوا ہے۔ اس مقالے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ڈینگی وائرس کا پہلا کیس بلوچستان کے علاقے حب سے 1960 میں رپورٹ ہوا تھا، جس میں بعدازاں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
مقالے میں بتایا گیا کہ ڈینگی کی سب سے پہلی وبا 2011 میں پنجاب کے شہر لاہور میں آئی، جہاں 37 ہزار 512 کیسز اور 363 اموات ریکارڈ ہوئیں۔ اسی طرح دوسری وبا سوات میں 2013 میں سامنے آئی، جہاں آٹھ ہزار سے زائد کیسز اور 57 اموات ہوئی تھیں۔ ڈینگی کی تیسری وبا 2017 میں آئی تھی، جس میں 25 ہزار سے زائد کیسز سامنے آئے اور 65 اموات ہوئی تھیں۔
اسی طرح 2020 میں 69 کیسز رپورٹ ہوئے تھے جب کہ 2021 میں 10 ہزار پانچ سو کیسز سامنے آئے جس میں اب تک 10 اموات ہوچکی ہیں۔
جہانگیر خان کے مطابق ڈینگی کیسز کی شرح میں اضافہ 2005 کے بعد ہوا ہے اور تب سے اب تک ملک میں ڈینگی کی تین وبائیں آچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ وبائیں مستقبل میں بھی آتی رہیں گی اور متاثرہ افراد کی تعداد میں گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہوگا۔
لیبارٹری قائم کرنے کے لیے خیبر پختونخوا حکومت کو کیا کرنا ہوگا؟
ڈاکٹر جہانگیر کہتے ہیں کہ سب سے پہلے ایک جگہ کی ضرورت ہوگی جس کا آغاز ایک کمرے سے بھی کیا جاسکتا ہے جبکہ اس سلسلے میں تقریباً سو افراد کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا: ’یہ ایک باریک اور حساس کام ہے۔ اس میں جس مشینری کی ضرورت پڑتی ہے وہ اتنی مہنگی نہیں ہے لیکن جن نر مچھروں کی افزائش کریں گے ان کے لیے ماحول کا موافق ہونا ضروری ہے۔ ‘
ڈاکٹر خان کے مطابق، بائیولوجیکل طریقہ کار کے دو مراحل ہیں۔ ایک میں نر مچھر کا استعمال کیا جاتا ہے اور دوسرے میں نر اور مادہ دونوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔
پہلے مرحلے میں نر مچھر میں ’افزائش نسل‘ رک جاتی ہے، جبکہ دوسرے مرحلے میں نر اور مادہ دونوں کو کھلی فضا میں چھوڑ کر قدرتی مچھروں میں ویبیکیا بیکٹیریا منتقل کرنے کے بعد ان میں افزائش نسل روک دی جاتی ہے۔