خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے رکن ملکوں میں ہونے والی ہنگامہ خیز سفارتی سرگرمیاں اور اعلیٰ اختیاراتی خلیجی عہدیداران کے عمان، امارات، قطر، بحرین، کویت، ترکی اور ایران کے دورے اور وہاں کی قیادت سے ملاقاتیں یقنیاً خطے کی گذشتہ ایک دہائی پر محیط خاموش سفارتی تاریخ پر نظر رکھنے والے مبصرین کے لیے حیران کن پیش رفت ہے۔
تاہم گذشتہ دس برسوں کے دوران بین الاقوامی، علاقائی اور مقامی سطح پر رونما ہونے والے کئی ایسے عوامل ہیں کہ جنہوں نے خطے کے عرب ملکوں کو حالیہ غیر معمولی سفارتی سرگرمی اور رابطوں پر مجبور کیا۔
امریکہ میں صدر جو بائیڈن کی انتخابی کامیابی ٹرمپ دور اور ان سے وابستہ خارجہ پالیسی اور بحرانوں کے خاتمے کا باعث بنی۔ دوسری جانب بائیڈن انتظامیہ کی اعلانیہ پالیسی، جس میں شرق اوسط سے متعلق ان کی کم ہوتی دلچسپی اور ایران سے متعلق مذاکرات سے واشنگٹن کے انخلا نے خطے کے ملکوں ۔ بالخصوص امریکہ کے عرب اتحادیوں ۔ کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کے لیے مجبور کیا۔
سوچ میں اس تبدیلی کا آغاز سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پانچ خلیجی ریاستوں کو 340 دن قبل مملکت کے تاریخی شہر العُلاء میں ہونے والے ایک سربراہی اجلاس میں مدعو کر کے کیا۔
العُلاء شہر کو دادان اور لحیان ادوار میں پایہ تخت کا درجہ حاصل رہا۔ نبطیوں کے دور میں یہ ایک مشہور کاروباری اور تجارتی مرکز تھا۔ اس شہر کی یہ پہچان ظہور اسلام کے بعد بھی برقرار رہی۔ سینکڑوں سال سے حجاج کرام بھی یہاں سے گزرتے رہے۔ اس لحاظ سے العُلاء گورنری حجاج کے قافلوں کی گزرگاہ اور میزبان رہی ہے۔
العُلاء سربراہی اجلاس کے دوران شہزادہ محمد نے دورس نتائج کے حامل اجتماعی مصالحت کا ایک منصوبہ پیش کر کے اس تاریخی شہر کو معاصر سیاسی اور سفارتی تاریخ کا ایک ایسا سنگ میل بنا دیا، جسے تادیر یاد رکھا جائے گا۔
مصر، امریکہ، عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم [او آئی سی] کے نمائندوں کی موجودگی میں منعقد ہونے والے خلیجی ریاستوں کے منفرد سربراہی اجلاس کے اختتام پر ’اعلان العُلاء‘ کی منظوری دی گئی۔
اعلان العُلاء کی منظوری پر امید افزا خیالات کا اظہار کرنے والے حلقوں کا خیال ظاہر کیا کہ طے پانے والے معاملات کو برگ وبار دکھانے کے لیے کم سے کم چھ مہینوں کا وقت دیا جانا چاہیے۔
العُلاء کے تاریخی اجلاس کا ایک برس گزرنے کے بعد آج ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ معاہدہ، زمانے کے سرد وگرم برداشت کرنے کے بعد وہ اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے جو اس وقت سعودی عرب کی قیادت نے اجلاس کی دعوت دیتے وقت طے کیے تھے۔
کامیابی کی اسی تاریخ کے تسلسل میں تین روز قبل ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے سطنت آف عمان کے دارالحکومت مسقط سے خلیجی ملکوں کے طوفانی دورے کا آغاز کیا، جس کا مقصد رواں برس 5 جنوری کو العُلاء میں ہونے والے اجلاس کے موقع پر شروع کی جانے والی کوششوں کو مؤثر بنانا ہے۔
ولی عہد کے دورے سے پہلے کیے جانے والے مختلف اعلانات نے بھی معاہدے کے نتائج کو تقویت فراہم کرنے میں مدد دی۔ انہی اعلانات کے تحت امیر قطر کی پشتی بانی میں ترکی نے سعودی عرب کے ساتھ مصالحت کے امکان کو روبعمل لانے کا عندیہ ظاہر کیا۔ ماضی میں دونوں ایک دوسرے کا نام سننا گوارا نہیں کرتے تھے۔
متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید نے دو ہفتے قبل انقرہ کا دورہ کیا۔ کسی بھی اعلیٰ اماراتی شخصیت کا 2012 کے بعد ترکی کا یہ پہلا دورہ تھا۔ اماراتی ولی عہد کا انقرہ میں انتہائی گرمجوشی سے استقبال کیا گیا۔
ترکی کے مقابلے میں یو اے ای کو ایکسپو 2020 کی میزبانی کا اعزاز ملنے اور عرب سپرنگ اور ڈاکٹر محمد مرسی مرحوم کی حکومت کے خاتمے کے بعد مصر سے ترکی میں پناہ لینے والی اخوان المسلمون کی قیادت کی میزبانی پر دونوں ملکوں کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے۔
اس سے پہلے بحرین کے وزیر خارجہ عبداللطیف بن راشد الزیانی اور ان کے بعد سعودی وزیر تجارت نے بھی ترکی کا دورہ کیا۔ امارات کے ولی عہد نے اپنے دورہ انقرہ میں اعلان کیا کہ ان کا ملک ترکی میں دس ارب ڈالر مالیت کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتا ہے۔ ایک برس کے دوران اپنی کرنسی لیرا کی قدر میں 47 فیصد کمی کے شکار ترکی کے لیے اس سے بڑھ کر اقتصادی سہارا اور کیا ہو سکتا تھا۔
خلیج ۔ ترک رابطوں کا شروع ہونے والا دور، سیاست اور معشیت سے ہٹ کر علاقائی سطح پر نئی راہیں تلاش کرنے میں کتنا مدد گار ثابت ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ لگانے کے لیے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کا یہ بیان کافی ہے کہ ’انقرہ نے جو ٹھوس اقدامات یو اے ای کے ساتھ اٹھائے ہیں ترکی جلد ہی ایسے اقدامات مصر اور اسرائیل کے ساتھ بھی اٹھانے جا رہا ہے۔‘
متحدہ عرب امارات کے مشیر قومی سلامتی نے بھی تہران کا دورہ کیا، جہاں چار دن قبل ان کی ملاقات ایران کے صدر سے بھی ہوئی۔ عراق سے گذشتہ چند مہینوں کے دوران ملنے والی اطلاعات کے مطابق ریاض اور تہران کے درمیان بغداد میں ہونے والی ملاقاتوں میں میزبانی کا فریضہ عراق نے سرانجام دیا۔
علاقائی سیاست میں ہونے والی حالیہ پیش رفت اور دورے ’اعلان العُلاء‘ کی منظوری کے ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر دیکھے جا رہے ہیں۔ اس تاریخی اجلاس کی پہلی سالگرہ مناتے ہوئے سعودی عرب سمیت اس اجلاس میں شریک تمام خلیجی ملک یک زبان ہو کر اس حقیقت کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ان کے درمیان پائے جانے والے اختلافات ہوا میں تحلیل ہو گئے ہیں۔ اس کے مضمرات خطے کی سیاست پر نمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ تمام متنازعہ علاقائی امور کے حوالے سے پائی جانے والی کشیدگی قصہ پارینہ بن گئی ہے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ خطے میں باہمی تنازعات راتوں رات پیدا نہیں ہوئے بلکہ ان کی آبیاری 2011 کے دوران عرب دنیا میں آنے والے ’انقلابوں‘ کی مرہون منت رہی ہے۔ عرب ملکوں میں کئی دہائیوں سے راج کرنے والے برجوں کے غیر متوقع زوال سے ان ملکوں میں ایسا خطرناک سیاسی خلا پیدا ہوا جسے سنبھالنا ان ملکوں کے بس میں نہیں رہا، جس کے بعد ناکام انقلابوں نے لیبیا، شام اور یمن میں جنگوں کی شکل اختیار کر لی۔
یہی نہیں بلکہ عرب دنیا کے اہم دارالحکومتوں میں اٹھنے والے سیاسی جوار بھاٹے سے عراق، سوڈان، تونس اور لبنان کا استحکام بھی خطرے میں پڑ گیا۔
گذشتہ دہائی کے دوران ہونے والے واقعات کسی ملک کے لیے پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوئے۔ کئی ممالک نے اپنی سرحدوں کے تحفظ اور داخلی سیاست کو افراتفری سے بچانے کے لیے نئے بلاک میں شمولیت اختیار کی۔ اجتماعی کشیدگی اور تناؤ کے یہ واقعات صرف خلیجی ملکوں کے لیے سوہان روح نہ تھے بلکہ ان کی بازگشت خطے میں بڑے پیمانے پر محسوس کی گئی۔
خلیجی ریاستوں کی کوششوں سے اپنے باہمی تنازعات ختم کرنے میں مدد ملی۔ مصالحت کا یہ عمل گہرے غور وفکر اور بڑے پیمانے پر تمام متعلقہ حلقوں کے اپنے اپنے موقف میں لچک کے بعد کامیابی کا سورج دیکھنے کے قابل ہوا۔ ان فیصلوں کے اثرات آج مصر اور ترکی تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم علاقائی سیاست میں آنے والی مثبت تبدیلیوں کے اثرات کو فی الحال تہران میں محسوس نہیں کیا جا رہا کیونکہ جی سی سی ملکوں کے حوالے سے ایران کے ساتھ پائے جانے والے تنازعات انتہائی پیچیدہ نوعیت کے ہیں۔ ان کے براہ راست ڈانڈے یمن، عراق، شام اور لبنان کی صورت حال سے ملتے ہیں۔
ایران کے ساتھ پیچیدہ ترین معاملات اگر مکمل طور پر حل نہ بھی ہو سکیں تو تہران سے فی الوقت کشیدگی میں کمی لانا بھی اجتماعی علاقائی امن کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
مختلف ملکوں کے درمیان طے پانے والی مصالحت کو ایک مدت تک آزمایا جا چکا ہے۔ ’اعلان العُلاء‘ کے بعد سامنے آنے والی سیاسی پیش رفت گیارہ مہینے گزرنے کے بعد اب روشنی کا مینارہ بن چکی ہے، جسے دیکھتے ہوئے خطے کے روشن مستقبل کی پیش گوئی دور کی کوڑی معلوم نہیں ہوتی۔
علاقائی سیاست پر نظر رکھنے والے پنڈت اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ مصالحت کی یہ کوششیں اب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین تک موقوف نہیں رہیں گی۔ اس کے دورس اثرات خطے میں خطرناک کشیدگی کے پھیلاؤ کو روکنے میں بھی معاون ثابت ہونے کا امکان روشن ہے۔
کشیدگی اور تناؤ کی یہ صورت حال چاہے آذربائیجان اور ایران کے درمیان ہو یا پھر اس کا ہدف آذربائیجان اور آرمینیا ہوں یا پھر اس تناؤ کے اثرات ترکی اور یونان میں محسوس کیے جا رہے ہوں، یا حال ہی میں ایتھوپیا کی خانہ جنگی میں ان کی جھلک دیکھی جا رہی ہو۔
ان تمام تنازعات کی نوعیت اور جغرافیہ الگ ہو سکتا ہے تاہم ان کے خطرات اور اثرات عرب دنیا میں بھی محسوس کیے جا رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں ان کے مضمرات سے بچاؤ کی تدابیر اور راستے بھی تلاش کیے جا رہے ہیں جو عالمی تنازعات کے حل کے ضمن میں علاقائی کوششوں کے باب میں قابل قدر اضافہ ہے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔