گوادر میں ’حق دو بلوچستان کو‘ تحریک کے سربراہ کا جمعے کو کہنا ہے کہ ’ہمیں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) سے چیک پوسٹوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا ہے۔ ہمیں تو لگتا تھا کہ گوادر میں سی پیک کے منصوبے سے ہمیں ہماری زندگی اچھی ہوجائے گی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔‘
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساحلی شہر اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے مرکز گوارد میں 15 نومبر سے مقامی افراد جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی سیکٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمن کی سربراہی میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
مولانا ہدایت الرحمن نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا ہے کہ ’ہمارے مطالبات بڑے نہیں ہیں۔ ہم سی پیک کی مد میں موٹر وے نہیں مانگ رہے ہیں۔ ہم نہیں کہتے کہ گوادر اور مکران کی سڑکوں پر ٹائل لگائیں یا سنگ مر مر کے روڈ بنا دیں اور نہ ہی یہ کہ ہمیں ایک کروڑ نوکریاں دے دیں۔‘
حق دو بلوچستان کو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن کا کہنا ہے کہ حکومت مقامی افراد کے مسائل کو حل نہیں کرنا چاہتی بلکہ اب ان کے خلاف مقدمات درج کر رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ دھرنا جاری رہے گا۔ ہم پاکستانی شہری ہیں اور ہم اپنے حقوق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘
انہوں نے اس تحریک میں اپنے پہلے مطالبے کے حوالے سے بتایا کہ ’ہمارے مطالبات ہیں کہ ’جو سمندر ہے اور 750 کلومیٹر کا ساحل ہزاروں سالوں سے ہمارے آبا و اجداد کے روزگار کا ذریعہ ہے وہاں ہزاروں کی تعداد میں موجود ٹرالر مافیا سمندری حیاتیات کی نسل کشی کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ یہاں غیر قانونی ماہی گیری اور ممنوعہ جال استعمال کر رہے ہیں جس کے باعث سمندر میں مچھلیاں ختم ہوگئی ہیں۔‘
ان کے مطابق: ’اسی وجہ سے لاکھوں ماہی گیر متاثر ہوئے ہیں۔ اگر ہماری مدد کرنے کے لیے حکمران ہم سے ٹیکس لیتے ہیں تو ہم انہیں ٹیکس دیں گے مگر خدا کے لیے ہمارے روزگار پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے۔‘
دوسرا مطالبہ
ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان کے پانچ اضلاع پاک ایران سرحد پر ہیں۔ ایران ہمارا اسلامی برادر ملک ہے جہاں سے ہماری اشیائے خرد و نوش اور ان پانچ اضلاع کی بجلی حاصل کی جاتی ہیں۔ بارڈر کی بندش کی وجہ سے گوادر میں لاکھوں افراد متاثر ہو رہے ہیں۔ اگر سکیورٹی ضروری ہے تو کریں مگر آزادانہ اور باعزت روزگار کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔‘
تیسرا مطالبہ
حق دو بلوچستان کو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن کا کہنا تھا کہ ’ہمیں سی پیک سے چیک پوسٹوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔ ہمیں تو لگتا تھا کہ گوادر میں سی پیک کے منصوبے سے ہمیں ہماری زندگی اچھی ہوجائے گی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن ہوگی۔ ہمیں علاج کے لیے کراچی جانا نہیں پڑے گا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔‘
ان کے مطابق: ’اس منصوبے نے ہمیں صرف چیک پوسٹیں دی ہیں جو کہ پہلے شاید 100 تھیں اور اب شاید 10 ہزار ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’دن میں پانچ بار ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ شناختی کارڈ دکھائیے، کیا آپ اس ملک کے شہری ہیں؟ تو ہم ہر بار شناختی کارڈ دکھاتے اور قسم کھاتے ہیں کہ ہاں ہم پاکستانی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے تعلیمی ادارے، ہسپتال، تفریحی مقامات، میدان، گھروں کے اندر اور اوپر اور سمندر کے کنارے چیک پوسٹیں ہیں۔ کیا ہم آزاد شہری ہیں یا ہم جیل میں رہ رہے ہیں؟ ہم چاہتے ہیں کہ غیر ضروری چیک پوسٹوں کو ختم کردیا جائے۔‘
چوتھا مطالبہ
مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ ’بلوچستان کے 10 لاکھ نوجوان منشیات کا شکار ہیں۔ بلوچستان میں دن میں روشنی میں منشیات کا کاروبار ہو رہا ہے۔ بلوچستان میں منشیات سمندر اور زمینی راستے سے آتی ہیں۔ اگر یہاں بازار میں منشیات بک رہی ہیں تو کہیں سے تو آرہی ہیں۔‘
انہوں نے الزام لگایا کہ ’منشیات کی روک تھام میں ہمارے ادارے ناکام ہیں اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ بلوچستان میں منشیات کے کاروبار کو روکا جائے۔‘
حکومتی اقدامات
اس حوالے سے رواں ہفتے بلوچستان کے وزیر منصوبہ بندی ظہور احمد بلیدی نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ حکام مظاہرین کے زیادہ تر مطالبات پر عمل کر چکے ہیں۔
ظہور احمد بلیدی کے مطابق مظاہرین نے 12 مطالبات پیش کیے ہیں جن میں سے چار بڑے جب کہ باقی جزوی مطالبات ہیں۔ تمام 12 مطالبات پر پیش رفت ہو رہی ہے۔ سمندر میں ٹرالنگ میں کافی کمی آ چکی ہے جب کہ بارڈر ٹریڈ مینیجمنٹ کا نظام بھی بہتر ہو رہا ہے اس کے علاوہ چیک پوسٹوں کے معاملے پر بھی بڑی حد تک کام ہو چکا ہے۔
دوسری جانب نو دسمبر کو کوئٹہ میں وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کی ہدایت پر گوادر میں غیر قانونی ٹرالنگ کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں گوادر میں غیر قانونی ماہی گیری کی روک تھام سمیت دیگر امور کا جائزہ لیا گیا تھا۔
اجلاس کے دوران چیف سیکرٹری مظہر نیاز رانا نے بتایا تھا کہ ’صوبائی حکومت گوادر میں غیر قانونی فشنگ کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات اٹھا رہی ہے اور جلد ہی غیر قانونی ٹرالنگ کی روک تھام ہو جائے گی۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’حکومت سندھ اور میری ٹائم اس بات کو یقینی بنائیں کہ سندھ سے آنے والے ماہی گیروں پر پابندی عائد کی جائے تاکہ وہ بلوچستان کے علاقے میں ماہی گیری نہ کریں۔‘
اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ گوادر میں غیر قانونی ماہی گیری کی روک تھام کے لیے ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیا جائے گا جو ماہی گیری کے لیے لیگل فریم ورک، انفورسمنٹ، ایجنسیوں کے درمیان تعاون اور وے فارورڈ دیکھے گا اور ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرے گا۔
اس سے قبل بھی حکومت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کے احکامات کی روشنی میں گوادر دھرنا مظاہرین کے مطالبات پر عمل درآمد جاری ہے جس کے تحت غیر قانونی فشنگ ٹرالرز پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
ماہی گیروں کے مسائل کے حل کے لیے ڈی جی فشریز کے مرکزی دفتر کو فی الفور کوئٹہ سے گوادر منتقل کر دیا گیا ہے اور غیر قانونی ٹرالنگ روکنے کے لیے محکمہ فشریز اور دیگر اداروں کے اہلکاروں کا گشت بڑھا دیا گیا ہے۔
مزید کہا گیا تھا کہ ماہی گیروں کو سمندر میں جانے کے لیے ٹوکن سسٹم کا خاتمہ کردیا گیا ہے اور اب ماہی گیر بغیر کسی اجازت کے سمندر میں آ جاسکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ گوادر میں تمام ’غیر ضروری‘ چیک پوسٹوں کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔
گوادر میں خواتین کی ریلی
26 روز سے جاری ’حق دو بلوچستان کو‘ تحریک میں گوادر کی خواتین نے بھی دھرنا دیا اور ریلی نکالی جو کہ مقامی افراد کے مطابق اپنی نوعیت کی تیسری بڑی ریلی تھی۔
گوادر کہ بندرگاہ سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر سجے پنڈال میں 10 دسمبر کے روز دھرنے میں شریک خواتین میں سے ایک ماہ نور بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بلوچستان کے قبائلی معاشرے کے اعتبار سے ہم نے پہلی بار خواتین کو اتنی بڑی تعداد میں اپنے گھروں سے باہر نکلتے دیکھا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’یہاں میں اس لیے آئی ہوں کیوں کہ ہمیں بہت زیادہ ذلیل کیا جارہا ہے۔ ہم پر امن احتجاج کر رہے، ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں سکون سے رہنے دیا جائے۔ ہمارے باپ بھائی مچھیرے ہیں، ٹرالرز مافیا کی وجہ سے ان کی آمدنی بالکل ختم ہوچکی ہے۔ ہمارے سکولز کو چیک پوسٹوں میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ تمام چیک پوسٹیں ہٹا دی جائیں، ہم کہتے ہیں کہ غیر ضروری چیک پوسٹوں کو ہٹایا جائے۔‘
دھرنے میں شریک خواتین کی بڑی تعداد ’مولانا قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘ کے نعرے لگاتی نظر آئیں۔
احتجاج میں شریک ایک اور خاتون نے کہا کہ ’حکام منشیات فروشوں سے بھتہ لیتے ہیں۔ پہلے منشیات والوں کو پکڑیں پھر پینے والوں کو پکڑیں۔ بلوچستان کے نوجوانوں کے مستقبل کا سوال ہے۔‘
دھرنے میں شریک انیلا کا کہنا تھا کہ ’جب تک ہمارے مولانا صاحب بیٹھے ہیں، تب تک ہم یہاں ہیں۔ اگر وہ ہمیں دن یا رات کو بلائیں گے تو ہم آئیں گے۔ مولانا کے لیے ہماری جان حاظر ہے۔ مطالبات پورے ہونے تک ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔‘