بجلی کی بندش کی وجہ سے لبنان اندھیرے میں ڈوب گیا ہے اور اس بلیک آؤٹ کے کئی دنوں تک جاری رہنے کا امکان ہے۔
ملک کے دو سب سے بڑے بجلی گھر الزہرانی اور دیر عمار کو ایندھن کی قلت کی وجہ سے بند کرنا پڑ گیا ہے اور ایسا حالیہ مہینوں میں پہلی بار نہیں ہوا۔
مقامی رپورٹس کے مطابق ان پلانٹس سے قومی گرڈ کو بجلی کی فراہمی رکنے سے ملک کو توانائی کی پیداوار 200 میگاواٹ تک گر گئی۔
سابق وزیر توانائی نے پہلے کہا تھا کہ ملک کو تقریباً تین ہزار میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے۔
لبنان کے نجی نیوز چینل ’ایل بی سی آئی‘ کے مطابق گذشتہ سال بیروت کی بندرگاہ پر ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں تباہ ہونے والے قومی کنٹرول سینٹر کی عدم موجودگی کی وجہ سے سرکاری بجلی کمپنی Electricite du Liban قومی گرڈ کو بغیر مشینوں کے دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ایک سرکاری عہدیدار نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو ہفتے کو بتایا: ’لبنانی پاور نیٹ ورک نے آج دوپہر کو مکمل طور پر کام کرنا بند کر دیا ہے اور اس اگلے پیر تک یا مزید کئی دنوں تک اس کے دوبارہ فعال ہونے کا امکان نہیں ہے۔‘
کرپشن اور بدانتظامی کے طویل الزامات کا سامنا کرنے والے سیاسی نظام کی بدولت 2019 میں معیشت کی تباہی سے غربت، بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافے نے لبنان کو روز مرہ زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کرنے والے بحرانوں کی لہر سے دوچار کر دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایندھن، بجلی، پانی اور ادویات کی فراہمی ان ضروریات میں شامل ہیں جو معاشی بحران سے متاثر ہوئی ہیں۔ عالمی بینک نے اس معاشی بحران کو لبنان کی جدید تاریخ کا بدترین معاشی زوال قرار دیا ہے۔
شہریوں کے مطابق اگر انہیں پورے دن میں بجلی فراہم کی جاتی ہے تو اس کا دورانیہ ایک یا دو گھنٹے تک ہی ہوتا ہے جب کہ کاروباری ادارے اور ہسپتال بجلی کی بندش کے باعث یا تو محدود یا پھر مکمل طور پر بند ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
ایک ایسے ملک میں جو کئی دہائیوں سے بلیک آؤٹ یا بجلی کی قلت کا شکار ہے کچھ شہری اکثر نجی جنریٹرز پر انحصار کرتے ہیں۔ لیکن ایندھن کی قلت اور اس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے اس لائف لائن کو بھی ان لوگوں کے لیے ناممکن بنا دیا ہے جو قانونی طور پر یا بلیک مارکیٹ سے ضروری ایندھن خریدنا چاہتے ہیں۔
ہفتے کو ایک عہدیدار نے روئٹرز بتایا کہ سرکاری بجلی گھروں کو عارضی طور پر چلانے کے لیے فوج کے فیول آئل ریزرو کو استعمال کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے لیکن ایسا جلد ہونا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔
سرکاری انرجی کمپنی کے ایک سینیئر ملازم نے متحدہ عرب امارات کے اخبار دا نیشنل کو بتایا کہ وہ بجلی کی بندش پر لوگوں کے حیران ہونے پر خود حیران ہیں اور یہ کہ انہوں نے پہلے ہی ایندھن کی کمی کے حوالے سے خبردار کر دیا تھا۔
بیروت میں باربی کیو کے ایک چھوٹے ریستوران کے مالک 50 سالہ حسن خلیفہ نے روئٹرز کو بتایا: ’1975 سے 1990 تک خانہ جنگی کے خوفناک حالات کے دوران بھی بجلی کا ایسا بحران نہیں دیکھا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ریاست، جس پر اپنے لوگوں کا خیال رکھنے کی ذمہ داری ہوتی ہے، اس کے برعکس کام کر رہی ہے۔ وہ ہمیں جتنا ممکن ہو سکے ذلیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
اقوام متحدہ نے گذشتہ ماہ ایندھن کے بحران کو کم کرنے کے لیے ایک کروڑ ڈالر امداد کا وعدہ کیا تھا تاکہ ملک میں پانی کے سٹیشنوں کو فعال اور 65 ہسپتالوں اور دیگر طبی سہولیات کی مدد کے لیے فنڈز مختص کیے جائیں جن میں سے بہت سے ایندھن اور بجلی کی کمی کی وجہ سے آپریشن کم کرنے پر مجبور ہوئے۔
© The Independent