وہ سوچ ہی رہی تھی کہ ’بابا مجھے کب گھر لے کر جایئں گے۔ آج پورے دو دن ہو گئے ہسپتال میں، اب شاید عید بھی یہیں گزرے گی۔‘ اپنے پرانے کپڑے اور بازو پر لگا قنولا دیکھ کر ننھی مِنہا کا دل بجھ سا گیا، سوچنے لگی کے اب آنکھیں کھلیں تو بھائی بہن اور امی بابا سامنے ہوں گے۔ جب نظریں اٹھائیں تو ہاتھوں میں مہندی اور چوڑیاں لیے ڈاکٹر طیبہ سامنے کھڑی تھیں۔ گلابی رنگ کی چوڑیاں اور مہندی کی کون دیکھ کر منہا کا چہرہ کِھل اٹھا۔
ڈاکٹر طیبہ روشنی نشتر ہسپتال ملتان کے سرجری وارڈ میں ہاؤس افسرہیں۔ انہوں نے گذشتہ دنوں سرجری کے وارڈ نمبر پانچ میں تمام مریضوں کے ساتھ چاند رات اور عید منائی۔ ڈاکٹر طیبہ نے اپنی جانب سے تمام خواتین اور بچیوں کے لیے نہ صرف خوبصورت رنگ کی چوڑیوں اور مہندی کا انتظام کیا بلکہ خود انہیں مہندی بھی لگائی جس میں ان کی کزن بختاور اشتیاق نے بھی ان کی مدد کی۔
نشتر ہسپتال کا وارڈ نمبر پانچ جنرل سرجری کا وارڈ ہے جہاں 13 سال سے اوپر کے بچوں کے علاوہ خواتین اور مردوں کو داخل کیا جاتا ہے۔ یہاں مریضوں کے لیے 35 بیڈز موجود ہیں اور ہر مریض کی ضرورت کے مطابق سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
عید کے موقعے پر ڈاکٹر طیبہ نے دیگر ڈاکٹرز کے ہمراہ مریضوں میں نہ صرف تحفے تقسیم کیے بلکہ ان سے یہ بھی جانا کی وہ اپنے گھروں میں عید کیسے مناتے ہیں۔ نشتر ہسپتال کا ایک جنرل سرجری وارڈ جہاں سب ایک دوسرے کے لیے انجان تھے وہیں عید کے قصے کہانیوں نے سب کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا اور گھر کا سا ماحول بنا دیا۔
فون پر انڈپنڈنٹ اردوسے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر طیبہ روشنی نے بتایا کہ انہیں کس طرح یہ ائیڈیا آیا اور ایک مشکل شیڈیول ہونے کے باوجود بھی انہوں نے اسے کیسے انجام دیا۔
ڈاکٹرطیبہ نے بتایا: ’چاند رات اور عید پر بھی میں سرجری وارڈ میں آن ڈیوٹی تھی۔ میں نے دیکھا کی تمام مریض بہت ڈپریسڈ تھے۔ سب سے پہلے میں نے ان سے بات کر کے یہ یقین دلایا کے عید پر کوئی بھی مریض اکیلا نہیں ہے، ڈاکٹرز ان کے ساتھ ہیں۔ میں ڈیوٹی سے واپس گھر گئی تو میری والدہ نے مجھے عید کے لیے مہندی لگوانے کو کہا، تب مجھے یہ احساس ہوا کہ ہم خواتین عید پر مہندی لگوانا اور تیار ہونا کتنا ضروری سمجھتی ہیں لیکن اُن تمام خواتین کا کیا جو ہسپتال کے بستر سے ہل بھی نہیں سکتیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’میری ڈیوٹی کا وقت رات آٹھ بجے تھا، کوئی مجھے بازار لے جانے والا نہیں تھا پھر بھی میں خود بازار گئی، مریضوں کی تعداد کے مطابق چوڑیاں خریدیں اور مہندی کے 10 کون لے لیے۔ میری کزن بختارو جسے مہندی کے اچھے ڈیزائن لگانے آتے تھے اسے ساتھ لیا اورنشتر ہسپتال عید منانے پہنچ گئی۔‘
یقیناً ڈاکٹری ان چند پیشوں میں سے ایک ہے جن کی نہ صرف عید کے موقعے پر بلکہ دیگر تہواروں اور عام تعطیل کے دن بھی ڈیوٹی ہوتی ہے، ہم نے ڈاکٹر طیبہ سے یہ جاننے کی کوشش کہ ہسپتال میں ایک ڈاکٹر کی عید کیسی گزرتی ہے اور کیا ان کا دل نہیں چاہتا کی ڈاکٹرز کی بھی چھٹی ہو؟
اس حوالے سے انہیوں نے کہا: ’مجھے اس بات کا بالکل افسوس نہیں کہ عید کے دن مجھے چھٹی نہیں ملی۔ بیماری کبھی بتا کر نہیں آتی، اس لیے عید پر ہماری ایمرجنسی چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہے اور جو بھی ڈاکٹر آن ڈیوٹی ہو وہ آپ کو کبھی سکون سے بیٹھا ہوا نظر نہیں آئے گا۔ عید پر ویسے بھی ٹراما اور حادثات کے کیسز ذیادہ ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ عید کے دوسرے دن بھی صبح 6 بجے سے 10 بجے تک، تقریباً چار گھنٹے، سینئر ڈاکٹرز کے ساتھ سرجری میں مصروف رہیں۔ ایک منٹ بیٹھنے کی فرست نہیں تھی۔ ’نہ ہم مریض کی امید ختم ہونے دیتے ہیں اور نہ ہی اپنی۔ جب مریض ٹھیک ہوجاتے ہیں اور ان کی آنکھوں میں امید کی روشنی نظر آتی ہے تو وہ خوشی ہمارے لیے عید سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے۔‘
حال ہی میں ینگ ڈاکٹرز نے تنخواہوں اور دیگر الاؤنسزکی ادائیگی کے لیے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے اور او پی ڈیز کا بائیکاٹ بھی کیا جس کے بعد ڈاکٹرز کا ایک انتہائی منفی تاثربھی سامنےآیا۔ یہاں تک کہ نجی ٹی وی چینل ’سماء نیوز‘ کے پروگرام ’نیا دن‘ میں اینکرز کی تین ہاؤس افسروں کے ساتھ کافی تلخ کلامی ہوئی اور انہیں سفید کوٹ میں مسیحا کہنے کے بجائے سفید کوٹ میں بھیڑئے کہا گیا تھا۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چھ ماہ سے تنخواہ کے بغیر کام کرنے والا ڈاکٹرجس کے اپنے گھر میں تنگدستی اور پریشانی ہو لیکن وہ اپنے فرض کی خاطرعید کی چھٹی تک قربان کردے، ایسے ڈاکٹر کو مسیحا کہیں گے یا سفید پوش بھیڑئے؟
ڈاکٹر طیبہ سے انڈپنڈنٹ اردو نے اس حوالے سے ان کی رائے جانی تو ان کا کہنا تھا :’ہم ڈاکٹرز کے لیے سب سے اہم بات ہے اپنے مریضوں کی دیکھ بھال کرنا، لیکن آج کل ڈاکٹرز کے بارے میں عجیب عجیب باتیں کی جاتی ہیں اور ان کی محنت کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ میں نے سب اپنے سینئر ڈاکٹرز سے سیکھا ہے اور سارا جذبہ ہمارے اندر وہیں سے آتا ہے جب ہم انہیں مریض کی جان بچانے کے لیے آخری حد تک لڑتے دیکھتے ہیں۔‘
’امید چھوڑ دینا اور ہمت ہار جانا بہت آسان ہے لیکن لڑتے رہنا اور آخری حد تک کوشش کرتے رہنا صبر اور استقامت کے ساتھ مجھے ڈاکٹری نے ہی سکھایا ہے۔‘