خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کے وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا ہے کہ صوبے کے آئندہ مالی سال برائے 20-2019 کے بجٹ کا حجم آٹھ سو ارب روپے کے لگ بھگ ہوگا جس میں قبائلی اضلاع کے علاوہ صوبے کا بجٹ ساڑھے چھ سو ارب روپے سے زائد ہوگا جبکہ بقایا ڈیڑھ سو ارب روپے قبائلی اضلاع میں خرچ ہوں گے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا: ’فوج کی جانب سے دفاعی بجٹ میں اضافہ نہ لینے سے بچنے والی رقم کا کتنا حصہ صوبے کو ملے گا، میں اس کی تفصیلات آپ کو نہیں دے سکتا۔ ہاں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اس کا ان قبائلی اضلاع پر بہت ہی اچھا اثر پڑے گا۔ ہماری مجموعی منصوبہ بندی، کوششوں اور آرمی شیئر کی وجہ سے سابقہ فاٹا کے لیے آنے والا سال ایسا ہوگا کہ جس کی مثال نہیں مل سکے گی۔ بس اتنا بتا دیتا ہوں کہ رواں سال یا اس سے پچھلے سالوں میں فاٹا میں جو پیسے لگتے رہے ہیں اس سے دگنے اس اگلے سال میں لگیں گے۔‘
تیمور جھگڑا صوبے میں وزیر خزانہ بننے سے پہلے بیرون ملک مختلف بڑی بین الاقوامی کمپنیوں کا حصہ رہے ہیں اور ان کے اسی تجربے کی بنیاد پر انہیں اس صوبے کی مالی اصلاحات کا کام سونپا گیا تھا۔ وہ سابق صدر مرحوم غلام اسحاق خان کے پوتے ہیں اور انہوں نے لندن سے ایم بی اے کی سند حاصل کر رکھی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے ان کی خصوصی گفتگو ذیل میں پڑھیے۔
سوال: یہ جو ریکارڈ رقم آ رہی ہے اس سے قبائلی اضلاع میں سب سے پہلے کون سا کام کریں گے؟
جواب: دو تین کام ہماری نظر میں ہیں جو فوری کریں گے۔ وہاں پر چونکہ نجی معیشت نہیں ہے تو جہاں پر خلا ہیں، وہاں پر لوگوں کو نوکریاں دیں گے۔ تعلیم، صحت، پولیس اور دیگر شعبوں میں 17 ہزار نوکریاں دینے کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم سماجی شعبے میں سرمایہ کاری کریں گے، معیشت کو سہارا دینے کے لیے سرمایہ لگائیں گے، جیسے سڑکیں بنانا، بجلی پہنچانا تاکہ ان کی معیشت جب بہتر ہو تو پورا پاکستان وہاں آ سکے۔
ان علاقوں کو ایک اور فائدہ ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی سرحد سے متصل ہیں۔ اگر ہم نے اس کا فائدہ لے لیا تو ان کی تجارت کی بنیاد پر بننے والی یہ معیشت خود ان اضلاع، خیبر پختونخوا اور پورے پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
سوال: قبائلی اضلاع کے لیے جو تاریخی ترقیاتی بجٹ آپ کہہ رہے ہیں اس میں وہ سو ارب روپے سالانہ والے ہوں گے جو سالانہ ضم شدہ قبائلی اضلاع کو وفاق سے ملیں گے یا وہ اس میں شامل نہیں ہیں؟
جواب: ابھی تک ضم شدہ قبائلی اضلاع کو جو وفاق سے ملتا ہے وہ 55، 50 ارب روپے ہوتا ہے اس کے لیے صوبے نے اپنا کیس بڑے بہترین انداز میں تیار کیا اور وفاق کو آمادہ کیا۔ اس کے علاوہ فوج سے بھی دفاعی بجٹ میں اضافہ نہ کرنے کی وجہ سے جو ملے گا وہ بھی آئے گا تویہ ایک ریکارڈ ترقیاتی بجٹ ہوگا۔
سوال: تو کیا افغانستان کے ساتھ یہ تجارت ہمارے باضابطہ انٹری پوائنٹس طورخم اور چمن کے راستے ہوگی؟
جواب: طورخم میں ہم ایک کام کرنے جارہے ہیں کہ یہ راستہ 24 گھنٹے کھلا رہے گا۔ اس کے لیے ورلڈ بنک کے ساتھ 40 کروڑ ڈالر کے ایک منصوبے کو بھی حتمی شکل دینی ہے۔ اس سے تجارت کے لیے ایک نیا ہائی وے بھی بنایا جائے گا۔ ساتھ ہی صنعتی علاقہ بنے گا۔ اس کے علاوہ ایشین ڈیولپمنٹ بنک کے ساتھ طورخم پر جدید ترین سرحدی سہولت یا بارڈر فیسیلیٹی بنانے کا ایک پراجیکٹ ہے اس میں دو تین سال لگیں گے۔ لیکن اس سے ہماری افغانستان کے ساتھ تجارت کی شکل بالکل بدل جائے گی۔
سوال: قبائلی اضلاع کے زیادہ ترنوجوان بے روزگار ہیں اور وقتاً فوقتاً انہیں غلط مقاصد کے لیے مختلف تنظیموں نے استعمال کیا ہے، ان کے لیے اس سارے معاشی نقشے میں کیا ہے؟
جواب: قبائلی نوجوانوں کو نوکریوں کے علاوہ وظائف دینے پر غور کر رہے ہیں۔ ان علاقوں میں یونیورسٹیاں ایک دن میں تو نہیں بن سکتیں لیکن انہیں دیگر اضلاع کی یونیورسٹیوں میں تو لایا جا سکتا ہے۔
سوال: صوبے کی مالی حالت کیسی ہے؟
جواب: اتنی بری نہیں ہے۔ ایک چیلنج ہے جو پورے ملک کو درپیش ہے اور جو طویل مدتی چیلنج ہے وہ یہ ہے کہ جیسے ایک صحت مند معیشت ہوتی ہے اس میں حکومت کا ایک کردار ہوتا ہے جس میں اس کے پاس ایک طرف سے سرمایہ آتا ہے اور وہ اسے خرچ کر رہی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ یہ بیلنس ہوا ہو۔ قومی سطح پر اس سال مالیاتی خسارہ سات فیصد تک ہونے کا امکان ہے یہ ہم افورڈ نہیں کر پا رہے جیسے ہم وفاقی سطح پر دفاع اور قرضوں کی ادائیگی کو نکال لیں تو پھر وفاق کے پاس کچھ نہیں بچتا۔
خیبرپختونخوا میں پچھلے پانچ سالوں میں بہتر مالی مینیجمنٹ ہوئی ہے اس لیے ہمارے پاس نسبتاً ترقیاتی فنڈ زیادہ ہے لیکن ہمارے لیے گذشتہ ساڑھے چھ سالوں میں چھوڑے گئے منصوبے یعنی تھرو فارورڈ بھی زیادہ رہا۔ ہمارے پاس پہلے سے ہی ان ساڑھے چھ سال کے 13 سو ترقیاتی منصوبے پڑے ہیں جن کو مکمل کرنے کے لیے 470 ارب روپے درکار تھے، اس میں ہم 160 یا 170 ارب روپے کا تھروفارورڈ کم کر دیں گے۔
سوال: اس سے تو لگ رہا ہے جیسے آپ خود سب کچھ کر رہے ہیں، بجٹ خود بنا رہے ہیں۔ چند دن پہلے تک تو سیاسی بیانات میں یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ اب بجٹ سازی سمیت سب کچھ آئی ایم ایف ہی کرے گا۔ یہ تاثر کتنا ٹھیک ہے؟
جواب: عام طورپر بھی ہماری بجٹ سازی میں آئی ایم ایف کا کوئی کردار نہیں ہوتا، ویسے بھی آئی ایم ایف کہتا ہے کہ جتنے جیب میں پیسے ہیں اس کے مطابق خرچہ کریں، حکومت اخراجات کم کرے، ترقی پرسمجھوتہ نہ کرے۔ تو میرا اپنا اندازہ ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ جو بھی کر رہا ہے، اپنے فائدے کے لیے کر رہا ہے، مستقبل کے طویل المدتی فائدے کے لیے کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ صوبوں کی پہلی میٹنگ میں ہم سب اس نتیجے پر پہنچے کہ صوبوں سے وفاق کو پیسے نہیں جا سکتے۔ این ایف سی میں صوبوں کے شیئر سے وفاق کو کچھ نہیں دیا جا سکتا۔ پھر دوسری میٹنگ میں یہ فیصلہ ہوا کہ وفاق قرضوں کی ادائیگی کے لیے اگر اپنے ٹیکسوں کی شرح بڑھا دے یعنی انہیں چار ہزار ارب سے ساڑھے پانچ ہزار ارب روپے پر لے جائے اور صوبے اس میں وفاق کو اضافی پیسے چھوڑ دیں تاکہ اس کے قرضے کم ہوں، اس پر اتفاق ہوا تھا۔
ہم یہاں اس صوبے میں ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد بڑھا رہے ہیں اور اسے 60 برس سے 63 برس پر لے کر جا رہے ہیں تاکہ تجربہ کار لوگوں کے تجربے سے زیادہ فائدہ لیں اور جو لوگ 45 سال کی عمر میں پیشگی ریٹائرمنٹ لینا چاہیں تو وہ ریٹائرمنٹ لینے کے بعد بھی مزید پانچ سال ہمارے ساتھ کام کر سکیں تاکہ حکومت نے ان پر جو سرمایہ کاری کی ہے اس کا فائدہ لوگوں کو تو ہو۔
ہم نے اس کے علاوہ ہر محکمے کے غیر ضروری اخراجات اور فضول خرچی پر کٹ لگایا ہے اس طرح ہم نے 60 ارب روپے کی فضول خرچی کم کر کے اس کو ترقیاتی بجٹ کی طرف منتقل کر دیا ہے۔
سوال: آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ معاہدے کے وقت ہمیں بہت ڈرایا گیا، ڈالر، بجلی، گیس اورپٹرول کے حوالے سے کہ ان کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی کا طوفان آ جائے گا اور خیبرپختونخوا جیسے صوبے زیادہ متاثر ہوں گے، تو آپ نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیا تیاری کی ہے؟
جواب: ہم اس صورتحال کے لیے تیار ہیں۔ اس حوالے سے ہونے والی باتوں میں سے شاید کچھ کا اثر ہو لیکن ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا اتنا منفی اثرنہ ہو جتنا کہا گیا تھا کہ ڈالر 180 روپے پر چلا جائے گا۔ آپ نے دیکھا کہ ڈالر واپس نیچے آ رہا ہے اور 150 روپے پر مستحکم ہو گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ سال دو سال کے لیے قیمتیں بڑھیں۔ اس صوبے کی مالی حالت اور گورننس کو بدلنا ہوگی کیونکہ ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہمیں لوگوں نے دو تہائی اکثریت دی ہے تو ہمارے پاس یہ کام کرنے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہے۔
سوال: آئندہ سال کے بجٹ میں صوبے کے لوگوں کو فوری ریلیف کیا دینے جا رہے ہیں؟
جواب: میرا خیال ہے کہ ٹھیک کام کرنا چاہیے تاکہ مستقل ٹھیک ہو جائے۔ ہم مشکل فیصلے کرنے آئے ہیں، ہم صوبے کے ہر فرد کو سو سو روپے کا نوٹ دینے کی بجائے انہیں ایک جامع معیشت دیں گے۔ ہم چند بڑے اقدامات کر سکتے ہیں وہ کر رہے ہیں۔ بجلی کی قیمتیں غریبوں کے لیے نہیں بڑھا رہے، ہیلتھ کارڈ کو یونیورسل کر رہے ہیں۔ یہ پاکستان کا پہلا صوبہ بنے گا جہاں پر یہ کارڈ سب لوگوں کو ملے گا۔
سوال: وفاق سے بجلی کے خالص منافع کے لیے آپ کی گذشتہ حکومت نے مسلم لیگ ن سے جو لڑائی لڑی وہ جدوجہد وفاق میں آپ کی حکومت بننے کے بعد اس وقت نظر نہیں آ رہی اور آپ صوبے کے اس حق سے محروم ہو رہے ہیں؟
جواب: ہم اب بھی ہر ہفتے وفاق سے رابطہ کرتے ہیں۔ اس معاملے پر اس صوبے کا موقف یہ ہے کہ یہ بالکل ہمارا حق ہے اس کا اگر کوئی ہمارے ساتھ حل نکالنا چاہے تو ہمارے رویے میں لچک ہے ہم بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اگر آج وفاق کے پاس پیسے نہیں تو جو ہمارا حق ہے اور آئین سے ثابت ہے، تو وہ اس کو مان کر بعد میں دے دیں۔ یہ ایک مشکل معاملہ ہے، اس پراسلام آباد کا اپنا ایک نقطۂ نظر ہے، ہمیں وہ نقطۂ نظر بدلنا ہوگا۔
سوال: بجٹ کا کل حجم کتنا ہو گا؟
جواب: باقی صوبے کے لیے بجٹ کا حجم تو ساڑھے چھ سو ارب روپے سے زیادہ ہوگا اور سابقہ فاٹا کا ڈیڑھ سو ارب روپے کے قریب ہوگا اس طرح بجٹ کا حجم آٹھ سو ارب روپے ہوسکتا ہے ہاں البتہ اس میں کچھ کمی پیشی کا امکان موجود رہے گا۔