کرغزستان کے شہر بشکیک میں 13 اور 14 جون کو شنگھائی تعاون تنطیم کا سربراہ اجلاس ہونے جا رہا ہے جس میں پاکستان اور بھارت دیگر رکن ممالک سمیت شریک ہوں گے۔
اجلاس کا ایجنڈا علاقائی امن و استحکام ہے۔ پاک ۔بھارت حالیہ کشیدگی کے بعد اس اجلاس کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ ایسے میں سفارتی ذرائع کا خیال ہے کہ اجلاس میں پاک ۔ بھارت وزرا اعظم کی باضابطہ نہیں تو غیر رسمی ملاقات کا امکان موجود ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کیا ہے؟
شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد 2001 میں شنگھائی پانچ کے نام سے رکھی گئی۔ شروع میں اس تنظیم میں چین، تاجکستان، روس، قزاقستان، اور کرغستان شامل تھے لیکن بعد میں ازبکستان کو بھی اس میں شامل کر کے شنگھائی پانچ سے شنگھائی تعاون تنظیم نام رکھ دیا گیا۔
پاکستان 2005 سے شنگھائی تعاون تنظیم میں مبصر ملک کی حیثیت سے شامل ہوا۔ 2010 میں پاکستان نے اس کی رکنیت کے لیے درخواست دی۔
تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان نے 2015 میں پاکستان کی درخواست کی منظوری دی جس کے بعد پاکستان اور بھارت دونوں جون، 2017 میں تنظیم کے باقاعدہ رکن بنے۔
دونوں ملکوں کی شمولیت سے تنظیم کے ارکان کی تعداد آٹھ ہوگئی۔
ایس سی او بنیادی طور پر امن و استحکام کو فروغ دینے کیلئے موثر علاقائی پلیٹ فورم ہے، جس کا مقصد خطے کے مسائل کو حل کرنا اور درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے۔
پاکستان ۔ بھارت کشیدگی کے بعد پہلا آمنا سامنا:
فروری میں پلواما حملے کے بعد شروع ہونے والی پاکستان۔ بھارت کشیدگی اور جنگ کے دہانے پر جانے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب دونوں ملکوں کے وزرا اعظم ایک پلیٹ فارم پر آمنے سامنے ہوں گے۔
بھارتی انتخابات اور نریندر مودی کی کامیابی کے بعد پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے نہ صرف سوشل میڈیا پر مبارک باد کا پیغام بھیجا بلکہ سفارتی سطح پر تہنیتی خط بھی بھجوایا۔
دفتر خارجہ کے مطابق، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اپنے بھارتی ہم منصب ڈاکٹر جے شنکر کو عہدہ سنبھالنے پر مبارک باد کے ساتھ مذاکرات کی دعوت بھی دے ڈالی۔
تاہم، بھارت نے کسی بھی خط کا تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔ گزشتہ ماہ شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرا خارجہ اجلاس میں قریشی اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی غیر رسمی ملاقات ہوئی تھی۔
سفارتی ماہرین کو اس ملاقات میں برف پگھلتی محسوس ہوئی لیکن بھارتی دفتر خارجہ کے مطابق بشکیک میں ہونے والے سربراہ اجلاس میں تاحال عمران خان اور نریندر مودی کی باضابطہ ملاقات طے نہیں ہوئی۔
سفارتی ذرائع کے مطابق باضابطہ ملاقات اجلاس سے ایک ہفتہ قبل طے ہو جاتی ہے جو کہ ابھی تک نہیں ہوئی لیکن اس کے باوجود ’پُل اسائیڈ‘ ملاقات کا امکان موجود ہے۔
کیا عمران خان کو مودی سے ملاقات کے لیے بے صبری کا مظاہرہ کرنا چاہیے؟
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر پاک ۔ بھارت وزرا اعظم کی ملاقات کے امکانات پر مختلف آرا پڑھنے کو ملیں۔
قومی وطن پارٹی کے چئیرمین آفتاب شیر پاؤ نے سوشل میڈیا بیان میں کہا ’عمران خان نے مودی کو پہلے ٹویٹ، پھر فون کال اور اب خط بھجوایا، لگتا ہے وہ بیتابی سے اپنے ہم منصب سے ملنا چاہتے ہیں۔‘
First a tweet than a phone call and now a letter to Modi. It seems Imran Khan desperately wants a meeting with the Indian PM in Bishkek@ImranKhanPTI #Modi#SCO pic.twitter.com/DPBsnGFmfo
— Aftab Ahmad Sherpao (@AftabaSherpao) June 7, 2019
ایک اور ٹوئیٹر صارف نے کہا پاکستانی سیکرٹری خارجہ سہیل محمود جو اس سے قبل بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر بھی رہ چکے ہیں، عید کے دن دہلی میں موجود تھے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان نے ملاقات طے ہونے کی ہر ممکن کوشش کی۔
Pakistan Foreign Secretary on surprise India visit amid talk of Imran-Modi meetingPakistan Foreign Secretary Sohail Mahmood was Islamabad’s last envoy to India. He left India on 14 April.@ImranKhanPTI @peaceforchange #EidMubarak #SAvIND pic.twitter.com/nvshynzGOM— Nadeem Mughal (@Warforchange) June 5, 2019
سابق سفیر عاقل ندیم نے اتوار کو انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ملاقات کا موقع گنوا دیا ہے۔
’مودی ابھی وزیراعظم بنے ہیں اور پاکستان میں یہ تاثر ہے کہ وہ پاکستان مخالف تقاریر کی وجہ سے ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے۔ ایسے میں وہ اتنی جلدی پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات کیوں کریں گے؟‘
انہوں نے کہا کہ عمران خان کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ’تین، چار ماہ پہلے بھارتی وزیراعظم کا رویہ دیکھ لیں پھر بات چیت کے لیے رابطہ کریں۔‘
’شنگھائی تعاون تنظیم کوئی آخری فورم نہیں، اس کے بعد ستمبر میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کا موقع بھی موجود ہے۔‘
ایک طرف مودی کا مثبت جواب نہ دینا ہے تو دوسری جانب ان کی بشکیک اجلاس میں شرکت کے لیے بھارتی حکومت نے پاکستان کی ہوائی حدود استعمال کرنے کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔
دفتر خارجہ کے مطابق بھارت کی درخواست پر غور کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے گذشتہ ماہ تنظیم کے وزرا خارجہ اجلاس میں شرکت کے لیے سشما سووراج کی پرواز کو بھی گزرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا رواں برس کیا ایجنڈا ہے؟
شنگھائی تعاون تنظیم علاقائی امن و ترقی کے لیے موزوں فورم ہے لیکن گزشتہ ایک دہائی سے جو دہشت گردی کے چیلنجز درپیش ہیں اُن کی وجہ سکیورٹی میں تعاون اہم ایجنڈا بن چکا ہے۔
گزشتہ برس کے اعلامیے میں سکیورٹی کے ساتھ ساتھ ڈرگ ٹریفکنگ اور سائبر حملوں پر بھی بات چیت کی گئی تھی۔
تنظیم کے سیکرٹری جنرل ولادی میر نورو کے مطابق رواں برس کے ایجنڈے میں رکن ممالک باہمی تجارت، خطے کو درپیش سکیورٹی کے معاملات سر فہرست ہیں۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق، تنظیم کے سربراہ اجلاس کی سائیڈ لائن میں وزیراعظم عمران خان کی کرغستان کے صدر، روس کے صدر ولادی میر پوٹن اور چین کے صدر شی جی پنگ سے ملاقات طے ہے۔