اسلام آباد میں غربت کے ہاتھوں دارالامان منتقل ہونے کا سوچنے والی تاجاں بی بی آج بریانی فروخت کرکے اپنا گھر چلا رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر بیمار ہونے کی وجہ سے کوئی کام نہیں کرسکتے، اگر کام کریں بھی تو ان کی طبیعت اتنی زیادہ بگڑ جاتی ہے کہ پیسے ان کے علاج پر ہی خرچ ہو جاتے ہیں، جس کے باعث کمانے کی ذمہ داری ان کے سر تھی۔
بقول تاجاں بی بی: ’میں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی مگر میری ہمت ختم ہوگئی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ انہیں بریانی کا سٹال لگاتے ہوئے دو مہینے ہو گئے ہیں۔ ’اللہ کا شکر ہے کہ میں اس کام میں کامیاب ہوگئی ہوں۔ میری بریانی اچھی ہے، بک رہی ہے۔ لوگ آتے ہیں، لے جاتے ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ’بہت مجبوریاں تھی۔ میں لوگوں کے گھروں میں کام نہیں کرسکتی تھی اس لیے میں نے یہ کام شروع کیا۔ صبح تھوڑی سی (بریانی) لے کر آتی ہوں اور جب یہ ختم ہوتی ہے تو شام کو اور لے کر آجاتی ہوں۔‘
تاجاں بی بی نے بتایا کہ بریانی کا آئیڈیا ان کے ذہن میں ایسے آیا کہ انہوں نے ایک دن اپنی بیٹی سے کہا کہ وہ دارالامان چلی جاتی ہیں کیونکہ ان سے کوئی کام نہیں ہوتا، نہ ہی ان کے شوہر سے کوئی کام ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم بقول تاجاں بی بی: ’میری بیٹی نے کہا امی آپ ایسا کریں کہ تھوڑے سے چاول بنا کر لے جائیں۔ اس میں آپ کو فائدہ بھی ہوگا اور آپ کا خرچہ بھی نکل آئے گا۔‘
میں نے کہا: ’میں کیسے جاؤں سڑک پر؟ میں نہیں جا سکتی مجھے بہت شرم آتی ہے۔ میں نے کبھی ایسا کام نہیں کیا کہ میں سڑک پر بیٹھ جاؤں۔ میں کس طرح بیٹھوں گی، تو پھر میری بیٹی نے ریڑھی لگانے میں میری مدد کی۔‘
تاجاں بی بی نے بتایا کہ ’میں ڈیرھ کلو یا دو کلو چاول لے کر آتی ہوں، اس سے زیادہ میں نہیں لاتی کیونکہ مجھے ڈر ہوتا ہے کہ یہ خراب ہو جائیں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’کبھی کبھی اگر کوئی 50 یا 20 روپے کی بریانی بھی مانگتا ہے تو اس کو بھی بریانی دے دیتی ہوں۔ کسی کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتی، کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ میرا کوئی گاہک خالی ہاتھ واپس جائے۔‘