دنیش بھارتی دیگر ساتھیوں کے ساتھ جمعے کو ریاست ہریانہ کے شہر گڑگاؤں میں کھلے مقام پر نماز ادا کرنے والے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لیے گھومتے پھرتے ہیں۔ یہ بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت کے تحت فرقہ وارانہ کشیدگی کا تازہ ترین نقطہ اشتعال ہے۔
دنیش کہتے ہیں: ’مسلمان کھلے عام نماز ادا کرتے ہیں اور ملک اور پوری دنیا میں مسائل پیدا کرتے ہیں۔‘ ان کے ماتھے پر موجود سرخ تِلَک اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ وہ کٹر مذہبی نظریات کے حامل ہیں۔
2014 میں وزیراعظم نریندر مودی کے انتخاب نے انتہاپسند ہندوؤں کی حوصلہ افزائی کی جو بھارت کو ایک ہندو قوم کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس کی دو کروڑ مسلمان اقلیت کو ممکنہ طور پر خطرناک سمجھتے ہیں۔
گڑگاؤں ایک جدید شہر ہے، جہاں تقریباً پانچ لاکھ مسلمان یا تو رہتے ہیں یا پھر کام یا مزدوری کے لیے یہاں ہجرت کرچکے ہیں۔
اس شہر میں مسلمانوں کے لیے 15 مساجد ہیں، لیکن مقامی حکومت نے مزید مساجد تعمیر کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے، حالانکہ یہاں ہندو مندروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمان برادری کھلی جگہوں پر نماز جمعہ ادا کرنے پر مجبور ہے۔
حالیہ برسوں میں انتہا پسند ہندوؤں نے اسلامی عبادت گاہوں پر گائے کا گوبر پھینکا اور عبادت گزاروں کو ’دہشت گرد‘ اور ’پاکستانی‘ کہا۔
اس دوران مقامی حکومت نے منظور شدہ کھلے مقامات والی عبادت گاہوں کی تعداد میں مسلسل کمی کی ہے۔
رواں ماہ کے شروع میں ریاست ہریانہ کے وزیراعلیٰ نے، جو وزیر اعظم مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن ہیں، اعلان کیا کہ گڑگاؤں میں کھلے مقام پر نماز کو ’اب برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘
وہ اصرار کرتے ہیں کہ مذہب پر صرف گھر کے اندر ہی عمل کیا جا سکتا ہے جبکہ دوسری جانب ہندو گروپوں نے گذشتہ جمعے کو ایک عارضی مندر اور کمیونٹی کچن قائم کیا، جہاں سینکڑوں لوگوں کو کھانا کھلایا گیا اور تیز آواز میں بھجن کی آواز آتی رہی۔
پورے شہر میں موجود نماز کے چھ مقامات میں سے صرف ایک کے دستیاب ہونے کی وجہ سے سینکڑوں مسلمانوں نے باری باری نماز ادا کی۔
ایک اور جگہ پر مسلمانوں کو ’جے رام جی‘ کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا۔
ایک مسلمان عالم صابر قاسمی نے بتایا اگر حکومت اس مسئلے کا کوئی حل تلاش نہیں کرتی، تو یہ مزید پیچیدہ اور سنگین ہو جائے گا۔
نریندر مودی سخت گیر ہندو قوم پرست گروپ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے تاحیات رکن ہیں۔
2002 میں جب وہ ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے تو گجرات میں مذہبی فسادات پر انہیں امریکہ میں داخلے سے مختصر طور پر روک دیا گیا تھا۔
ان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ’گاؤ ماتا کی حفاظت‘ کے لیے ہندو اشتعال پسندوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی تشدد سے ہلاکت جیسے واقعات میں اضافہ ہوا جبکہ نفرت پر مبنی دیگر جرائم نے بھی مسلمان کمیونٹی میں خوف اور مایوسی کا بیج بویا۔
کئی ریاستوں نے مسیحیت اور اسلام قبول کرنے کو جرم قرار دینے کے حوالے سے قانون سازی کی ہے، جس میں شادی کے ذریعے ’لَو جہاد‘ کے ذریعے تبدیلی مذہب بھی شامل ہے۔
رپورٹس کے مطابق رواں ہفتے دائیں بازو کے ہندو گروپوں کے ایک اجتماع کی ایک ویڈیو سامنے آئی، جس میں کچھ نے مسلمانوں کو قتل کرنے کا مطالبہ کیا۔
گڑگاؤں میں ہندو مظاہرین کا کہنا ہے کہ کھلے مقامات پر نماز کی ادائیگی سے ’سکیورٹی‘ کا خطرہ ہوتا ہے، ٹریفک کے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور بچوں کے کرکٹ کھیلنے میں خلل پڑتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اصل وجہ صرف یہ ہے کہ نریندر مودی کے زیر انتظام بھارت میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں، جہاں ہندو انتہا پسند حکومتی پالیسیوں کے تحت احکامات جاری کر رہے ہیں۔
ایک سیاسی مبصر آرتی آر جیراتھ نے کہا: ’یہ بھارت کو سیکولر ملک سے ایک ’ہندو ملک‘ میں تبدیل کرنے کا ایک ایجنڈا ہے۔‘
جیراتھ نے مزید کہا: ’چاہے یہ تجارتی مقامات ہوں، عبادت کی جگہیں ہوں، کھانے پینے کی جگہیں ہوں، رسم و رواج یا کوئی بھی چیز جس کی مسلم شناخت ہو، یہ اس منصوبے کا حصہ بننے جا رہا ہے۔‘
’ضروری نہیں کہ یہ حکومت کی طرف سے سپانسر شدہ منصوبہ ہے، لیکن یقینی طور پر یہ حکومت کے حامیوں کا ایک منصوبہ ہے، جنہیں حکومت کی طرف سے کھلی حمایت حاصل ہے۔‘
اتوار کو ایک انتہا پسند ہندو گروپ کے سربراہ نے ایک حل تجویز کیا تھا: ’مسلمانوں کو مذہب تبدیل کرنا چاہیے۔‘
تنظیم سنیوکت سنگھرش سمیتی کے چیئرمین مہاویر بھردواج نے کہا: ’ان (مسلمانوں) کے پاس عبادت کے لیے مندر ہوں گے اور یہ (نماز کا) مسئلہ ختم ہو جائے گا۔‘